جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

کیا عورت کی نماز جنازہ میں بھی کہا جائے گا: " وأبدلها زوجاً خيراً من زوجها" یعنی: فوت شدہ خاتون کو اسکے خاوند سے بہتر خاوند عطا فرما۔

202933

تاریخ اشاعت : 13-06-2014

مشاہدات : 14018

سوال

خاتون کو دفن کرتے وقت یہ دعا پڑھنا جائز ہے؟" وأبدلها زوجاً خيراً من زوجها" یعنی: فوت شدہ خاتون کو اسکے خاوند سے بہتر خاوند عطا فرما، یا پھر یہ دعا مَردوں کیلئے خاص ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل علم رحمہم اللہ کے اس بارےمیں مختلف اقوال ہیں کہ دعا کے مذکورہ الفاظ عورت کیلئے بھی ہیں یا صرف مرد کیساتھ خاص ہیں، اس بارے میں دو اقوال ہیں:

پہلا قول:

یہ دعا مرد کیساتھ خاص ہے، اس لئے عورت کیلئے یہ الفاظ (" وأبدلها زوجاً خيراً من زوجها" یعنی: فوت شدہ خاتون کو اسکے خاوند سے بہتر خاوند عطا فرما)نہیں کہے جاسکتے، کیونکہ عورت آخرت میں اگر جنتی ہوئی تو وہ اپنے دنیا والے خاوند کی بیوی رہے گی۔

چنانچہ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"فقہائے کرام کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ یہ مرد کیساتھ خاص ہے، اس لئے عورت کیلئے یہ الفاظ (" وأبدلها زوجاً خيراً من زوجها" یعنی: یا اللہ! فوت شدہ خاتون کو اسکے خاوند سے بہتر خاوند عطا فرما)نہیں کہے جائیں گے؛ کیونکہ یہ خاتون آخرت میں اپنے دنیاوی خاوند کی بیوی ہوسکتی ہے، اور بیوی ایک ہی آدمی کی ہوتی ہے، اس میں شراکت نہیں ہوسکتی، اور کوئی مرد بھی اس بات کو قبول نہیں کرتا" انتہی

ماخوذ از: " شرح سنن النسائی " از سیوطی (4/73)

ابن یوسف مواق رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر عورت کا جنازہ ہو تو آپ کہیں گے : [اللهم إنها أمتك] یعنی: یا اللہ! یہ تیری باندی تھی۔۔۔ اسی طرح آخر تک مذکر کیلئے استعمال الفاظ کو مؤنث الفاظ میں تبدیل کردیا جائے گا، لیکن آپ یہ نہیں کہیں گے کہ: (" وأبدلها زوجاً خيراً من زوجها" یعنی: یا اللہ! فوت شدہ خاتون کو اسکے خاوند سے بہتر خاوند عطا فرما) کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ خاتون جنت میں بھی اپنے دنیاوی خاوند کی ہی بیوی ہو، اور جنتی خواتین اپنے اپنے خاوندوں کے پاس ہی رہیں گے، کسی اور کے پاس جانا پسند نہیں کریں گیں، جبکہ ایک آدمی کی متعدد بیویاں ہونگی لیکن عورت کیلئے متعدد خاوند نہیں ہونگے"انتہی

" التاج والإكليل لمختصر خليل " (3/18)

بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"عورت کا جنازہ پڑھتے ہوئے دعا میں کہا جائے گا: (اللهم إن هذه أمتك ابنة أمتك نزلت بك , وأنت خير منزول به۔۔۔۔) یعنی:" یا اللہ! یہ تیری باندی ہے، اور تیری باندی کی بیٹی ہے، جو تیرے پاس پہنچ چکی ہے، اور توں بہترین پہنچنے کی جگہ ہے ۔۔۔۔"لیکن دعا میں یہ الفاظ نہیں کہے گا: (أبدلها زوجا خيرا من زوجها، یعنی: " یا اللہ! فوت شدہ خاتون کو اسکے خاوند سے بہتر خاوند عطا فرما ") فقہائے کرام کی گفتگو سے یہی ظاہر ہوتا ہے، جیسے کہ الفروع میں موجود ہے" انتہی

" كشاف القناع " (2/116)

دوسرا قول:

یہ ہے کہ بہتر متبادل کی دعا خواتین کے لئے بھی مانگی جائے گی؛ اور اسکی دلیل کے طور پر حدیث کا عموم پیش کیا جاتا ہے کہ : (وزوجاً خيراً من زوجه) میں لفظ "زوج" خاوند اور بیوی دونوں پر بولا جاتا ہے، تو پھر دعا میں عورت کیلئے مفہوم یہ ہوگا کہ : خاوند کی بری صفات اچھی صفات سے بدل دی جائیں، نا کہ اسے کوئی اور اچھا خاوند عطا کیا جائے۔

رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

دعائے جنازہ میں ( وزوجاً خيراً من زوجه ) کے بارے میں فیصلہ یہ ہے کہ یہ الفاظ خواتین کے بارے میں بھی کہے جائیں گے۔

چنانچہ اس دعا میں بہتر متبادل سے مراد خاوند کی بہتر متبادل صفات اور اخلاقیات ہیں، کوئی اور نیا خاوند مراد نہیں ہے۔ انتہی

" نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج " (2/477)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

( وزوجا خيرا من زوجه ) کے الفاظ دعائے جنازہ میں کہے جائیں گے چاہے جنازہ مرد کا ہو یا عورت کا۔

یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے؛ کہ اگر جنازہ مرد کا ہو، اور ہم اسکے لئے مذکورہ الفاظ کے ساتھ دعا کریں تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حورِ عین دنیاوی بیویوں سے افضل ہیں، اور اگر جنازہ عورت کا ہے تو پھر یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالی دنیا میں موجود میاں بیوی کے جوڑے میں علیحدگی کردے، اور اسے بہتر خاوند عطا فرمائے، چنانچہ یہاں یہ دو اشکال وارد ہوتے ہیں؟

پہلے اشکال کا جواب یہ ہے کہ: ( أبدله زوجا خيرا من زوجه ) ان دعائیہ الفاظ میں یہ بات کوئی واضح نہیں ہےکہ حورِ عین دنیا کی خواتین سے افضل ہیں؛ کیونکہ یہاں بہتری سے مراد اخلاقی بہتری مراد ہے، کوئی اور بہتری کی قسم مراد نہیں ہے۔

اس جواب سے یہ دوسرے اشکا ل کا جواب بھی واضح ہوگیا، چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ : یہاں بہتری سے مراد اخلاقی اور صفاتی بہتری مراد ہے، کوئی نیا بہتر خاوند عطا کرنا مقصود نہیں ہے، اس مفہوم کی بنا پر اس دعا میں ضمنی طور پر یہ بات بھی شامل ہوگئی ہے کہ اللہ تعالی دنیاوی میاں بیوی کے جوڑے کو جنت میں بھی اکٹھا رکھے؛ کیونکہ اللہ تعالی اہل جنت کے دلوں میں سے ہر قسم کا کینہ بغض نکال دے گا، اور وہ اخلاقیات کے اعلی درجے پر فائز ہونگے، چنانچہ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بہتری اشیاء کے تبدیل کرنے سے آتی ہے، اسی طرح اشیاء کے اوصاف بدلنے سے بھی آسکتی ہے، اسکی مثال قرآن مجید کی یہ آیت ہے:

( يوم تبدل الأرض غير الأرض والسماوات )

یعنی: "قیامت کے دن زمین و آسمان کو تبدیل کردیا جائے گا" إبراهيم : 48

حالانکہ قیامت کے دن زمین یہی ہوگی لیکن اس دن زمین کی حالت تبدیل ہوگی، اسی طرح آسمان یہی ہوگا لیکن اسکی حالت بھی تبدیل ہوگی۔ انتہی

" الشرح الممتع " (5/327)

اہم نوٹ:

جنازے کی دعا کے الفاظ ( وزوجا خيراً من زوجه ) دفن کرتے ہوئے نہیں کہے جائیں گے، بلکہ نمازِ جنازہ کے دوران تیسری تکبیر کے بعد کہے جائیں گے، چنانچہ امام مسلم نے (963) میں عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازِ جنازہ پڑھاتے ہوئے سنا ، آپ دعا مانگ رہے تھے: (اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَاعْفُ عَنْهُ وَعَافِهِ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ ، وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ ، وَقِهِ فِتْنَةَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ)

ترجمہ: یا اللہ! اس کی مغفرت فرما ، اور اس پر رحم فرما، اس کو معاف فرما اور اس کو عافیت سے نواز، اور اس کی بہتر طریقہ سے مہمان نوازی فرما ،اور اس کی قبر کو کشادہ فرما، اور اس کو پانی ، اولے اور برف سے دھو دے ، اور اسے گناہوں سے اس طرح پاک کردے جیسے سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے اور اس کو اس کے گھر سے عمدہ مکان اور ٹھکانا عطا فرما دے ، اور اس کو عمدہ بیوی عطا فرما، اور اس کو عذاب قبر اور عذاب جہنم سے محفوظ فرما۔

جبکہ دفن کرتے وقت احادیث مبارکہ میں یہ آیا ہے کہ میت کیلئے مغفرت اور فرشتوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ثابت قدمی کا سوال کیا جائے، جیسے کہ ابو داود (3221) میں ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :"نبی صلی اللہ علیہ وسلم میت کو دفن کرکے فارغ ہوتے تو کھڑے ہوکر فرماتے: (اپنے بھائی کیلئے استغفار کرو، اور اسکے لئے ثابت قدمی کی دعا مانگو، اس سے اب سوال کیا جارہا ہے)" اس روایت کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب