جمعہ 7 جمادی اولی 1446 - 8 نومبر 2024
اردو

کیا دوبیویوں والے شخص کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ پہلی بیوی کے پاس روزانہ جائے ؟

20455

تاریخ اشاعت : 12-04-2004

مشاہدات : 8582

سوال

میرا خاوند مندرجہ ذيل کام کرتا ہے :
میرے گھرمیں صرف ہفتہ میں دو دن آتا ہے اوروہ بھی عشاء کے بہت ہی دیر بعد اورفجر سے قبل واپس چلاجاتاہے ، اپنی پہلی بیوی کوروزانہ کام پراوراس کے بچوں کوسکول لے جاتا ہے ، اورمجھے اکیلا چھوڑتا ہے میں خود ہی کام پر بھی جاتی ہوں اوربچوں کوبھی سکول چھوڑتی ہوں ، اور ڈیوٹی ختم ہونے پر بھی وہ ایسے ہی کرتا ہے ۔
پہلی بیوی کے گھرمیں جاتا اوروہاں لیٹ رہتا ہے اورجب کچھ کرنے کوباقی نہیں رہتا تومیرے گھرمیں رات کودیر سے آداخل ہوتا ہے ، میرے اورمیری اولاد کے لیے اس نے کوئي دن خاص دن مقرر نہیں کیا ، اس کا خیال ہے کہ جب وہ میرے پاس رات کوآتا ہے تو پھر اس کے لیے جائز ہے کہ وہ دن کوجومرضی کرتا رہے چاہے وہ دوسرے گھر چلا جائے ۔
وہ ہر رمضان پہلی بیوی کے ساتھ مسجد میں گزارتا ہے ، اس کا صرف ایک ہی عذر ہے کہ میں اس کی پہلی بیوی سے متفق نہیں ہوں تواس وجہ سے اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جووہ مناسب سمجھے گا وہی کرے گا ، ان حالات کی وجہ سے ہمارے درمیان بہت سی مشکلات اوراختلاف پیدا ہوگیا ہے ، جس کی وجہ سے میں طلاق لینا چاہتی ہوں اوریہ کہ مجھ پر ظلم ہورہا ہے ، اوران حالات میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ، اس لیے کہ میرا خاوند صحیح طور پر اللہ تعالی سے خوف نہیں کھاتا جواسے باور کرائے کہ اس کا ایسا کرنا غلط ہے اوراسے روز قیامت حساب بھی دینا ہے ، اورلگتا نہیں کہ اس میں کچھ تبدیلی پیدا ہو جوکہ مجھے قبول نہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے مرد کے لیے چارشاعورتوں سے بیک وقت شادی کرنا مباح کیا ہے ، جس میں بہت سی عظیم مصلحتیں ہیں ، لیکن یہ جگہ ان کی تفصیل بیان کرنے کی نہیں ، لیکن اس کےباوجود اللہ تعالی نے اس مسئلہ کومردوں پرہی نہیں چھوڑ دیا کہ وہ اپنی رغبت اورخواہش سے جومرضی کرتے رہیں ۔

بلکہ اس مسئلہ کوکچھ شروط و قیود کے ساتھ مقید کیا ہے کہ تا کہ تعدد نکاح کا بلند اوراعلی مقصود حاصل ہوسکے ۔

اورآپ جس مشکل سے دوچار ہیں وہ انہی قیود اورضوابط اورحقوق کے نقص کی بنا پر پیدا ہوئي ہے ، جوکہ تقسیم کے حق سے خالی ہونے کی بنا پر ہے کہ اس نے آپ کی کوحق تقسیم نہیں دیا ، جبکہ مرد پر واجب اورضروری ہے کہ اپنی بیویوں کے درمیان رات اوردن کی تقسیم میں بھی عدل کرے ۔

توخاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی بیویوں کے مابین دن اورراتیں برابری کے ساتھ تقسیم کرے ، اور اس کے یہ جائز نہیں کہ وہ تقسیم کے بعد ان میں سے کسی ایک کوزیادہ وقت دے اوراس کےپاس رات گزارنے یا اس کے پاس ٹھرنے کے لیے اسے خاص کرلے ۔

ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ دوسری اس پر راضی ہوکہ اس کےپاس زیادہ رہ لیا کرو ، لیکن رضامندی کےبغیرمطلقا ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اوران عورتوں کے ساتھ اچھے اور احسن انداز میں بود وباش اختیار کرو النساء ( 19 ) ۔

اوراپنی بیویوں میں سے کسی ایک کوزيادہ وقت دینا اوردوسری کوکم حسن معاشرت میں سے نہیں ، اس موضوع کے بارہ میں ہم آپ کے سامنے کچھ علماء کرام کے اقوال پیش کرتے جس سے یہ موضوع اورواضح ہوگا :

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس پر دلالت کرتی ہے اورمسلمان علماء کرام بھی اسی پر ہیں کہ مرد اپنی بیویوں کے درمیان دن اورراتوں کی تعداد کوتقسم کرے ، اوراس پر ضروری اورواجب ہےکہ وہ اس تقسیم میں عدل وانصاف سے کام لے ۔ ا ھـ دیکھیں کتاب الام للشافعی ( 5 / 158 ) ۔

اورایک دوسری جگہ پر کچھ اس طرح کہتے ہیں :

میرے علم میں نہیں کہ کسی نے بھی اس کی مخالفت کی ہوکہ مرد کواپنی بیویوں کے درمیان تقسیم اوران کے درمیان عدل کرنا چاہیے ۔ اھـ کتاب الام ( 5 / 280 ) ۔

امام بغوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

اگرمرد کے پاس ایک سے زيادہ بیویاں ہوں اوروہ آزاد عورتیں ہیں توان کے درمیان تقسیم میں برابری کرنا واجب ہے چاہے وہ بیویاں مسلمان ہوں یا پھر کتابی ، اوراگروہ تقسیم میں برابری اورانصاف کوترک کرتا ہے تواس نے اللہ تعالی کی معصیت کا ارتکاب کیا ہے ، اوراس پر واجب ہے کہ وہ مظلوم بیوی کا حق ادا کرنے کے لیے قضاکرے ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس کی دو بیویاں ہوں اوروہ ان میں سے کسی کی طرف مائل ہو توروز قیامت اس حالت میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب مائل ہوگی ) سنن ابوداود ( 2 / 242 ) سنن ترمذی ( 3 / 447 ) سنن ابن ماجہ ( 1 / 633 ) ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے بلوغ المرام ( 3 / 310 ) میں اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 7 / 80 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

اس میلان سے میلان فعل ہے ، کیونکہ جب وہ تقسیم میں برابری اورعدل کرتا ہے تو میلان قلب کا مؤاخذہ نہيں ہوگا ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

تم سے یہ توکبھی نہیں ہوسکے گا کہ تم اپنی تمام بیویوں ہر طرح عدل کرو ، گو تم کتنی بھی خواہش اورکوشش کرلو اس لیے بالکل ہی ایک کی طرف مائل نہ ہوجاؤ کہ دوسری کومعلق کرکے چھوڑ دو ۔

اس کا معنی یہ ہے کہ :

تم جوکچھ دلوں میں ہے اس کے بارہ میں توانصاف نہیں کرسکتے ، توتم بالکل ہی ایک طرف مائل نہ ہوجاؤ ، یعنی تم اپنے افعال اورخواہش کے پیچھے نہ چل نکلو ۔۔۔ ا ھـ دیکھیں شرح السنۃ للبغوی ( 9 / 150 - 151 ) ۔

اورشیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

مسلمانوں کااس پر اتفاق ہے کہ خاوند پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے مابین عدل وانصاف کرے ، اورسنن اربعہ میں ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس کی دو بیویاں ہوں ۔۔۔ )

اس پر واجب اورضروری ہے کہ وہ ان کے مابین تقسیم میں عدل وانصاف سے کام لے تواگر ایک کے پاس ایک رات یا دو یا تین راتیں بسر کرتا ہے تو دوسری کے پاس بھی اتنی ہی راتیں بسر کریں اورکسی ایک کوبھی دوسری پرتقسیم میں فضیلت نہ دے ا ھـ دیکھیں مجموع الفتاوی ( 32 / 269 ) ۔

اورابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

بیویوں کے مابین تقسیم میں برابری اورعدل وانصاف کرنے کے بارہ میں ہمیں اہل علم کے مابین کسی اختلاف کا علم نہیں ، اوراللہ تعالی کا بھی فرمان ہے :

اوران عورتوں کے ساتھ اچھے احسن اندازمیں بود باش اختیار کرو ، اورمعروف میلان کے ساتھ نہیں ۔ ا ھـ دیکھیں المغنی لابن قدامہ ( 8 / 138 )۔

تواس بنا پر آپ کا خاوند جو کچھ کررہا ہے وہ تقسیم میں عدل وانصاف اوربرابری نہیں اوروہ اللہ تعالی کے ہاں بہت ہی عظیم معصیت اورنافرمانی ہے ، اوراللہ تعالی ظلم کوپسند نہیں فرماتا ، اورنہ ہی وہ ظالموں سے محبت کرتا ہے ، اوررہا یہ مسئلہ کہ اس کا خیال ہے کہ جوآپ کے لیے دن مقرر ہے اس میں دوسری بیوی کے پاس جانا جائز ہے تواس کا یہ خیال اورگمان بھی غلط ہے ۔

شیخ منصور بھوٹی کا کہنا ہے کہ :

اورخاوند پر یہ حرام ہے کہ وہ کسی ایک کی مقرر کردہ رات میں یا دن میں دوسری بیوی کے پاس جائے لیکن اگرکوئي ضرورت ہوتو پھر جاسکتا ہے ۔

دیکھیں الروض المربع شرح زاد المستقنع ( 6 / 449 ) ۔

اوراس کا یہ عذر پیش کرنا کہ آپ اس کی پہلی بیوی سے متفق نہیں ، یہ ایک اور غلطی کا ارتکاب ہے ، جس کا حل یہ نہيں کہ دوسرے پر ظلم کیا جائے ، بلکہ آپ کے خاوند پر یہ لازم اورضروری ہے کہ وہ اس معاملہ کوحل کرنے کے لیے شرعی اوامر پر عمل کرے ، نہ کہ جوکچھ اس کے ذہن میں آتا اورجووہ مناسب سمجھتا ہے اس پر عمل کرتا پھرے ۔

پھر ہم یہ کہيں گے کہ اسے ایسا کرنے کیا حاصل ہوا ؟ کیا یہ مشکل حل ہوگئي یا کہ اس کی مشکلات میں اضافہ اوروہ مشکل بھی اورپختہ اورپکی ہوگئي ؟

اورآپ کے طلاق کے مطالبہ کے بارہ میں ہم یہ گزارش کریں گے کہ آپ کا اس پر صبر کرنا اوراس کے ساتھ ساتھ اپنے خاوند کی اچھے اوراحسن انداز میں اصلاح کرنا بہتر اوراچھا ہے ، آپ کے علم میں ہے کہ طلاق توسب سے آخری حل ہے ، اورپر اس طلاق پر بہت سے مفاسد بھی مرتب ہوتے ہیں ۔

اس لیے ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ اسے کثرت سے نصیحت کریں اوراللہ تعالی کی یاد دلائيں اوریہ باور کرائيں کہ یہ دنیا فانی ہے عنقریب وہ کل قیامت کے روز اللہ تعالی کے سامنے پیش ہوگا تووہ اس ظلم اورزيادتی کا اللہ تعالی کوکیا جواب دے گا ؟

اوراسی طرح آپ اسے اس بھی خوفزدہ کریں کہ اگروہ ایسا ہی کرتا رہا توہوسکتا ہے آپ سے طلاق کا مطالبہ کردوں ، شائداس سے ہی وہ سمجھ جائے اوراس کے ذہن میں اللہ تعالی کا خوف آجائے اوروہ یہ سمجھے کہ آپ اس طرح کے حالات کوبرداشت نہیں کرسکتیں جو کہ عقلا اورشرعا دونوں لحاظ سے جائز نہيں ، اور آپ کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنے خاندان یا پھر خاوند کے خاندان کے کچھ عقل منداوراصلاح پسندلوگوں کو اپنے اس معاملہ میں شامل کرتے ہوئے ان سے تعاون کی دوخواست کریں کہ وہ اس سے بات کریں ۔

اورآپ پر ضروری ہے کہ صبر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے دعا اورالتجا بھی کرتی رہیں کہ اللہ تعالی اسے ھدایت سے نوازے اوراس فعل سے اسے بازرہنے اورتوبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اورآپ یہ کہنا کہ لگتا نہیں کہ اس میں کچھ تبدیلی آئے ، یہ توصرف آپ کاخیال ہے ، کتنے ہی ظالم اورفاسق قسم کے لوگ بلکہ کافروں کواللہ تعالی نے ھدایت سے نوازا اوروہ اپنے ان اعمال اورافعال سے باز آگئے اوراللہ تعالی نے ان کی اصلاح فرمادی ، اوراصل بات تو یہ ہے کہ دل اللہ و رحمن کی انگلیوں کے درمیان ہيں وہ جس طرح چاہے اسے گھما دے ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کے خاوند کوھدایت سے نوازے اورآپ دونوں کے مابین خیر وبھلائی پیدا کرے اورآپ کواس کی توفیق دے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب