سوموار 11 ربیع الثانی 1446 - 14 اکتوبر 2024
اردو

کھانا کھانے سے قبل سورہ فاتحہ اور دعا کرنے کی عادت ہے، اسکا کیا حکم ہے؟

سوال

ہندوستان میں کچھ مسلم جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ کھانا کھانے سے قبل سورہ فاتحہ اور دیگر دعائیں پڑھتے ہیں، انکا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا ہے، اور اسکے لئے اس حدیث نبوی سے استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا پیش کیا گیا اور کہا گیا اس کھانے کیلئے برکت کی دعا کردیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے سے قبل یہ دعائیں کیں، وہ لوگ اس دعا کو "دعائے فاتحہ" کا نام دیتے ہیں۔
تو کیا یہ درست ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کھانا کھانے کے بعد میزبان کیلئے دعا کرنا مسنون ہے، جیسے کہ صحیح مسلم میں (2042) ہے کہ عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد کی طرف تشریف لائے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا اور وطبہ (کھجور، پنیر، اور گھی سے بنا ہوا حلوہ) پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا، پھر کھجوریں لائی گئیں تو آپ نے وہ بھی کھائیں،اور کھجوروں کی گٹھلیاں اپنی دونوں انگلیوں یعنی شہادت والی انگلی اور درمیانی انگلی کے ذریعے پھینکنے لگے پھر آپکو مشروب پیش کیا گیا، تو آپ نے نوش فرمایا، اور پھر اپنے دائیں طرف بیٹھے ہوئے شخص کو دے دیا، عبداللہ کہتے ہیں: پھر میرے والد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی لگام پکڑی اور عرض کی : اے اللہ کے رسول! ہمارے لئے دعا فرمائیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی (یا اللہ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما)

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس حدیث سے پتہ چلا کہ مہمان کی طرف سے وسیع رزق، مغفرت، اور رحمت کی دعا کرنا مستحب ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس دعا میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں جمع فرما دیں" انتہی

اور ابو داود (3854) نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے تو وہ آپ کیلئے روٹی اور زیتون کا تیل لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہارے پاس روزہ دار افطار کریں اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں اور فرشتے تمہارے لئے رحمت کی دعا کریں)

مذکورہ بالا تمام احادیث میں دعا کھانا کھانے سے پہلے یا بعد میں یا کسی اور حالت میں ہر کسی نے خود کی ہے، سوال میں مذکور اجتماعی شکل میں نہیں ۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:

ایک شخص کی عادت تھی کہ ہر جمعہ کو اچھی خاصی تعداد میں لوگوں کو کھانا کھلایا کرتا تھا، اور کھانا کھانے کے بعد کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا تھا، بلکہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر دعا کا انتظار کرتے، جو میزبان کی طرف سے مقرر ایک شخص کرواتا تھا، جس میں دعا یہ کی جاتی تھی کہ اے اللہ! اس کھانے کا ثواب انکے فوت شدگان رشتہ داروں کو پہنچا دے، اور دعا کے دوران سائل بھی حاضرین کے ساتھ ہاتھ اٹھاتا اور سب اُسکی دعا پر"آمین"کہتے، تو کیا کھانے کے بعد اجتماعی دعا کیلئے ہاتھ اٹھانا اور دعا کرنا جائز ہےیا نہیں؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"شریعت مطہرہ میں کھانے کے بعد مذکورہ کیفیت کے ساتھ اجتماعی دعا کرنے کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے، اس لئے اسکو چھوڑنا ضروری ہے، کیونکہ یہ بدعت ہے۔

اور سنت کے مطابق میزبان کیلئے برکت کی دعا کردی جائے ، ہر شخص خود سے یہ دعا کردے؛کافی ہے،حدیث مبارکہ میں جو دعا ذکر ہوئی ہے وہ یہ ہے:

اللهم بارك لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم

یا اللہ! ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور ان کی مغفرت فرما اور ان پر رحم فرما۔

( أفطر عندكم الصائمون وأكل طعامكم الأبرار وصلت عليكم الملائكة )

تمہارے پاس روزہ دار افطار کریں اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں اور فرشتے تمہارے لئے رحمت کی دعا کریں "

"فتاوى اللجنة الدائمة" (24 /189-190)

دوسری بات:

کھانے سے پہلے سورہ فاتحہ کی تلاوت اور خاص دعائیں پڑھنا اور اسکے بارے میں یہ دعوی کرنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے سے قبل یہ دعائیں مانگی تھیں، بدعت ہے، ہمیں اسکی کوئی دلیل نہیں ملی، اور نہ ہی کہیں یہ ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ کھانا کھانے سے پہلے یا بعد میں دعا کیلئے ہاتھ اٹھا لیں اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کریں۔

اس لئے ضروری ہے کہ اس بدعت کو ترک کر دیا جائے، اور صحیح احادیث میں وارد دعاؤں پر اکتفاء کیا جائے، اور صحیح و ضعیف احادیث اور سنت و بدعت کے متعلق علم رکھنے والے اہل علم کی کتابوں پر اعتماد کیا جائے۔

اسی طرح لوگوں کی بھی اسی بات کی طرف راہنمائی کی جائے، اور انہیں بدعات سے باخبر کیا جائے اور انہیں اِن سے بچنے کی تلقین کی جائے۔

کھانے پینے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار اور آداب جاننے کیلئے سوال نمبر (6503) اور (13348)کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب