منگل 18 جمادی اولی 1446 - 19 نومبر 2024
اردو

حاجی کے لیے سلے ہوئے کپڑے پہننا کیوں حرام ہیں

سوال

اللہ تعالی نے حجاج کرام پرسلے ہوئے کپڑے پہننا کیوں حرام کیا ہے ، اوراس میں کیا حکمت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

اللہ سبحانہ وتعالی نے مکلف اورحج کی استطاعت رکھنے والے پرعمر بھر میں ایک بارفریضہ حج کی ادائيگی فرض کی ہے ، اوراسے دین اسلام کا ایک رکن قرار دیا ہے ، جوکہ دین میں معلوم بالضرورۃ ہے ، لھذا مسلمان پرضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی رضا اوراس کےحکم پرعمل کرتے ہوئے اللہ تعالی کے فرض کردہ کی ادائيگي کرے اوراس سے اجروثواب کی امید رکھے اوراس کےسزاوعقاب سے خوفزدہ ہو ۔

اوراس کے ساتھ اس یا یہ اعتقاد ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی اپنے تمام افعال اوراپنی تشریع میں حکمت والا ہے ، وہ اپنے بندوں پربہت زيادہ مہربان اوررحم کرنے والا ہے لھذا وہ جوبھی ان کے لیے مشروع کرتا ہے اس میں ان کےلیے کوئي نہ کوئي مصلحت ہوتی ہے ، اوراس کا دنیا وآخرت میں عمومی نفع بھی انہيں ہی پہنچتا ہے ، لھذا تشریع اورقوانین بنانے ہمارے مالک ورحیم اللہ تعالی کا خاصہ ہے اوربندے کا کام تویہ ہے کہ وہ انہيں تسلیم کرتا ہوا اس کی متابعت واطاعت کرے ۔

دوم :

حج وعمرہ میں سلے ہوئے کپڑے نہ پہننے مشروع کرنے میں بہت ساری حکمتیں پنہاں ہیں جن میں سے چندایک ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں :

روزقیامت لوگوں کے اٹھائے جانے کے حال کی یاد دھانی ، لھذا سب لوگ روزقیامت اٹھائے جائینگے توننگے پاؤں اورننگے جسم ہونگے اوربعد میں انہيں کپڑے پہنائے جائینگے ۔

اورآخرت میں حالات کی یاددھانی میں بہت ساری وعظ ونصیحت اورعبرتیں پائي جاتی ہیں جن میں سے چندایک یہ ہيں :

نفس کونیچا کرنا ، اوراسے تواضع وانکساری کے وجوب کا احساس اورشعور دلانا ، اورتکبر وغرور کی میل کچيل سے اس کی تطہیر وصفائي کرنا ۔

اوریہ بھی ہے کہ : نفس کوایک دوسرے کے قریب رہنے اورمساوات وبرابری کی اصلیت کا احساس دلانا ، اورناپسندیدہ آسائش وخوشحالی سے دوررہنا ، اورفقرآہ مساکین کی غمخواری اورخیال رکھنا وغیرہ شامل ہے ، اس کے علاوہ بھی مقاصد حج اس کیفیت پرجواللہ تعالی نے مشروع کی اوراس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیان کیا ہے ۔

اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے اوراللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اورصحابہ کرام پراپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلیمۃ والافتاء ۔

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 11 / 179 ) ۔

(٭ تنبیہ :

سلےہوئے سےمراد یہ نہيں کہ جس میں بھی سلائي کی گئي ہو بلکہ مخیط یا سلائي کیے ہوئے سے مراد یہ ہےکہ : وہ کپڑا یا لباس جوجسم کے اعضاء کے مطابق بنایا گيا ہو مثلا :

جیکٹ ، - جوکہ بازؤں اورسینہ کے مطابق بنائي گئي ہے ۔

سلوار یا پاجامہ - جودونوں ٹانگوں کے مطابق بنائي گئی ہے ۔

موزے یا جرابیں - دونوں پاؤں کےمطابق بنائي گئي ہیں ۔

عورت کے لیے دستانے : دونوں ہتھیلیوں کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔

تواس بنا پروہ گھڑی جس میں‎ سلائي ہو پہننی جائز ہے ، اوراسی طرح جوتے جس میں سلائي ہو پہننے جائز ہیں ، اوروہ بیلٹ جس میں سلائي ہوباندھنی جائز ہے ۔۔ الخ ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد