منگل 2 جمادی ثانیہ 1446 - 3 دسمبر 2024
اردو

ماں دو جڑواں بچوں کو دودھ پلا رہی ہے، اور خدشہ ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے بچوں کا نقصان ہوگا۔

سوال

میرے جڑواں بچے ہیں، جنکی عمر ابھی صرف پانچ ماہ ہے، اور انکی غذا صرف ماں کا دودھ نہیں ہے، کیونکہ میرا دودھ کم ہے، اس لئے ساتھ میں ڈبے کا دودھ بھی پیتے ہیں، لیکن مجھے خدشہ ہے کہ روزے رکھنے کی وجہ سے میرا دودھ کم نہ ہو جائے، تو میں انہیں اپنا دودھ نہیں پلا سکوں گی، اور نتیجۃ چھوٹی سی عمر میں دودھ چھوٹ جائے گا۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا مجھے روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

پہلی بات:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (اللہ تعالی نے مسافر کو آدھی نماز معاف کردی ہے، جبکہ حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین کو روزہ معاف کردیا ہے)

اس روایت کو أبو داود (2408) ،ترمذی(715) ،نسائی(2275) ، ابن ماجه (1667) نے بیان کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحيح أبو داود میں "حسن صحيح" قرار دیا ہے۔

مذکورہ حدیث ظاہری طور پر حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے بارے میں مطلق ہیں ، لیکن ان احادیث کو حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین کو یا بچوں کو نقصان پہنچنے کے خدشہ سے منسلک کیا جائے گا، جیسا کہ سنن ابن ماجہ کے " سندی حاشیہ" (1 / 512) میں اس کا ذکر کیا گیا ہے:

"حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اگر اپنے آپ یا پھر جنین یا شیر خوار بچے کے بارے میں اندیشہ رکھتی ہوں [تو انہیں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے]" انتہی

جصاص اپنی کتاب " أحكام القرآن "(1/244) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (اللہ تعالی نے مسافر کو آدھی نماز معاف کردی ہے، جبکہ حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین کو روزہ معاف کردیا ہے) ذکر نے کے بعد کہتے ہیں: "یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو روزہ چھوڑنے کی اجازت بچوں یا اپنی جان کو خطرہ لاحق ہونے کی شکل میں ہے"

اسی طرح اسی کتاب کے چند صفحات (1/252) بعد کہتے ہیں:

" اگر روزے کی وجہ سے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو ، یا بچوں کو نقصان ہو، تو انکے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں، روزہ چھوڑ دینا ان کیلئے افضل ہے، اور اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے انہیں یا انکے بچوں کو نقصان نہیں ہوگا، تو ان پر روزہ رکھنا ضروری ہے، انکے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے"انتہی

روزہ چھوڑنے کے بارے میں علمائے کرام کی متعدد توضیحات میں نقصان کے خطرے کا ذکر کیا گیا ہے، بلکہ اس قید کو ذکر کرنے پر سب علمائے کرام کا اتفاق ہے، جیسے کہ ہم نے فتوی نمبر (66438) میں تفصیل کیساتھ اس کا ذکر کیا ہے۔

مندرجہ بالا بیان کے بعد:

اگر آپکو روزہ رکھنے کی وجہ سے دودھ بالکل خشک ہوجانے یا دودھ میں مزید نقصان دہ کمی آنے کے خدشات لاحق ہوں تو آپ روزے چھوڑ سکتی ہیں۔

بالکل اسی طرح اگر آپکو اپنے بارے میں خدشات لاحق ہوں کہ روزے کے دوران دودھ پلانے سے کمزوری ہوجائے گی، اور آپکو ناقابل برداشت مشقت سے گزرنا پڑے گا تو ایسی صورتِ حال میں بھی آپ روزہ چھوڑ سکتی ہو۔

ہاں اگر روزے کی وجہ سے دودھ میں غیر ضرر رساں کمی واقع ہوتی ہے، اور اس سے دونوں بچوں کے دودھ کی مقدار پر زیادہ اثر نہیں پڑتا تو ایسی صورتِ حال میں روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہوگا، خاص طور پر جب ڈبے کے دودھ سے اس کمی کا ازالہ ممکن ہو۔

" الأم " از امام شافعی (2 / 113) میں ہے کہ :

"حاملہ خاتون کو اپنے جنین کے متعلق اگر یقینی خدشات لاحق ہوں تو روزہ مت رکھے، اسی طرح دودھ پلانے والی خواتین بھی، بشرطیکہ کہ روزے کی وجہ سے دودھ میں خاطر خواہ کمی واقع ہو، اور اگر غیر یقینی خدشات ہوں تو ایسی حالت میں روزہ نہیں چھوڑا جاسکتا۔

روزے کی وجہ سے کبھی بیماری میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے، لیکن یہ بات یقینی نہیں ہے، بالکل اسی طرح دودھ کم بھی ہوسکتا ہے، لیکن یہ کمی بھی یقینی نہیں ہے؛ چنانچہ اگر بیماری بڑھ جائے یا دودھ میں کمی بہت زیادہ ہوجائے تو روزہ چھوڑا جاسکتا ہے"انتہی

دوسری بات:

اگر دودھ پلانے والی خاتون کو اپنے بچے کے بارے میں یقینی خدشات کی بنا پر روزہ چھوڑنا پڑا تو اب اس خاتون کے ذمہ کیا ہوگا؟ اس بارے میں مختلف آراء ہیں، جیسے کہ " الموسوعة الفقهية الكويتية " (32 / 69) میں ہے:

"حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین نے اپنے بچوں کی خاطر روزہ چھوڑ دیا تو شوافع کے ہاں مشہور ترین قول کے مطابق، ایسے ہی حنابلہ ، اور مجاہد اس بات کے قائل ہیں کہ دونوں روزوں کی قضا کیساتھ ساتھ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گی؛ کیونکہ یہ دونوں فرمانِ باری تعالی (وعلى الذين يطيقونه فدية طعام مسكين)یعنی: " اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھیں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلائیں"کے عموم میں داخل ہوتی ہیں، اور ابن عباس کی تفسیر اس آیت کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے۔

ابن قدامہ کہتے ہیں:

یہی بات ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے، اور کسی صحابی نے انکی مخالفت بھی نہیں کی؛ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خواتین فطرتی طور پر ایسے حالات میں روزہ رکھنے سے عاجز ہوتی ہیں، اس لئے ان پر بھی بوڑھے آدمی کی طرح کفارہ دینا واجب ہوگا۔

جبکہ احناف، عطاء بن ابی رباح، حسن، ضحاک، نخعی، سعید بن جبیر، زہری، ربیعہ، اوزاعی، ثوری، ابو عبید، ابو ثور اور شوافع کے ہاں ایک توجیہ کے مطابق حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین پر کفارہ ضروری نہیں ، بلکہ مستحب ہے؛ اسکی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (اللہ تعالی نے مسافر کو آدھی نماز معاف کردی ہے، جبکہ حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین کو روزہ معاف کردیا ہے) راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "صوم" یا "صیام" کا لفظ بولا تھا، یا دونوں ہی آپ نے ارشاد فرمائے تھے۔

شوافع سے تیسری روایت کے مطابق جو مالک اور لیث کا بھی قول ہے، وہ یہ ہے کہ حاملہ خاتون صرف روزوں کی قضا دے گی اس پر کفارہ نہیں ہوگا، جبکہ دودھ پلانے والی خاتون روزے کی قضا بھی دیگی اور اسے فدیہ بھی دینا ہوگا، کیونکہ دودھ پلانے والی خاتون دودھ پلانے کیلئے کسی اور خاتون کا بھی سہارا لے سکتی ہے، لیکن حاملہ کسی کا سہارا نہیں لے سکتی، اسی طرح حمل ، حاملہ کے جسم کا حصہ ہے، اس لئے حمل کے بارے میں اندیشہ اسکے اپنے اعضاء کے بارے میں خدشات کی طرح ہے، ایسے ہی حاملہ اگر روزہ چھوڑتی ہے تو اسکے اپنے جسم میں موجود وجوہات کی بنا پر چھوڑتی ہے تو وہ مریض کے حکم میں بھی ہوگی؛ لیکن دودھ پلانے والی خاتون نے اپنے جسم سے جدا چیز کی وجہ سے روزہ ترک کیا ، اس لئے اس پر فدیہ بھی لازمی ہوگا۔

بعض سلف صالحین جن میں ابن عمر، ابن عباس، سعید بن جبیر رضی اللہ عنہم شامل ہیں، اس بات کے قائل ہیں کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین روزہ چھوڑ سکتی ہیں اور اس کے بدلے میں کھانا کھلا دیں، اور ان پر قضا بھی نہیں ہوگی" انتہی

راجح–اللہ بہتر جانتا ہے- یہ ہے کہ ایسی خواتین کو صرف قضا دینا ہوگی کفارہ یا فدیہ نہیں دیں گی۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا، جیسا کہ "فتاوی الصیام" (166) میں ہے کہ:

"اگر حاملہ یا دودھ پلانے والی خاتون صحت مند اور طاقتور ہونے کے باوجود بغیر کسی عذر کے روزہ چھوڑ دے ، اور روزہ اسکی صحت پر منفی اثرات بھی نہ ڈالے تو اسکا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"کسی حاملہ یا دودھ پلانے والی خاتون کیلئے رمضان کے روزے بغیر کسی عذر کے چھوڑنا جائز نہیں ہے، اگر عذر کی بنا پر روزہ چھوڑ بھی دیں انہیں روزے کی قضا دینی ہوگی؛ کیونکہ مریض کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ) ترجمہ: "اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو رمضان کے بعد روزے رکھے" لہذا ان دونوں خواتین کا حکم مریض والا ہوگا۔

اور اگر تو روزے رکھنے کی وجہ سے بچے کو نقصان کا اندیشہ ہو تو دونوں خواتین کو کچھ اہل علم کے ہاں قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو گندم، چاول ، کھجور، یا دیگر بطورِ خوراک استعمال ہونے والی اجناس سے کھانا کھلانا ہوگا۔

جبکہ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ انہیں ہر حالت میں قضا ہی دینی ہوگی؛ کیونکہ قضا کے ساتھ کھانا کھلانے کے بارے میں کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیں ملتی، اور اصل یہ ہے کہ انسان بری الذمہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ کوئی دلیل انسان کی براءت کو ختم کردے، یہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف ہے جو کہ ٹھوس موقف ہے"

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے " فتاوى الصيام " (ص162) میں یہ بھی پوچھا گیا:

"ایک حاملہ اپنی یا جنین کی جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتی تو اسکا کیا حکم ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

"اس سوال کے جواب میں ہم کہیں گے کہ حاملہ کی دو صورتیں ہیں:

1- حاملہ خاتون طاقتور، اور صحت مند ہو، اور روزے کی وجہ سے اسکی اپنی یا جنین کی صحت پر کوئی منفی اثرات مرتب نہ ہوں تو ایسی خاتون پر روزے رکھنا ضروری ہے، کیونکہ روزہ چھوڑنے کیلئے اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔

2- حاملہ خاتون جسمانی کمزوری یا کسی اور وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتی ہو، تو ایسی صورتِ حال میں روزہ چھوڑ سکتی ہے، خاص طور پر اگر جنین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسی شکل میں روزہ چھوڑنا واجب ہوجائے گا، چنانچہ اگر حاملہ روزہ چھوڑ دے تو اسکا حکم دیگر عذر کی بنا پر روزہ ترک کرنے والے لوگوں جیسا ہوگا؛چنانچہ جیسے ہی رکاوٹ زائل ہو تو قضا دینا واجب ہوگی، لہذا زچگی کے بعد نفاس ختم ہونے پر روزوں کی قضائی دے گی۔

لیکن کبھی کبھی ایک عذر زائل ہونے کے بعد دوسرا عذر آجاتا ہے، اور وہ ہے دودھ پلانا، اس صورت میں بھی دودھ پلانے والی خواتین کو کھانے پینے کی ضرورت پڑتی ہے، خاص طور پر گرمیوں کے لمبے دنوں میں، جب گرمی بھی شدید ہو، تو اسے روزہ چھوڑنے کی ضرورت پڑسکتی ہے، تا کہ بچے کو اپنا دودھ پلا سکے، لہذا ہم ایسی صورتِ حال میں کہیں گے:روزے چھوڑ دو، جیسے ہی عذر ختم ہوگا روزوں کی قضا دے دینا"انتہی

ابن باز رحمہ اللہ " مجموع الفتاوى " (15/224) میں کہتے ہیں:

"حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے انس بن مالک الکعبی نے روایت کی ہے جو مسند احمد اور اصحاب سنن کے ہاں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو روزہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے، اور انہیں مسافر کے حکم میں شامل کیا ، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ وہ مسافر کی طرح روزہ نہیں رکھیں گے اور بعد میں قضا دیں گی، جبکہ کچھ اہل علم نے کہا ہے کہ مریض کی طرح اگر ان پر بھی روزہ رکھنا مشکل ہو یا انکے بچوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، اور اگر مشکل نہیں تو روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے"

مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (49794) اور (50005) کا مطالعہ بھی کریں۔

وا للہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب