بدھ 19 جمادی اولی 1446 - 20 نومبر 2024
اردو

دودھ پلانے والی اورحاملہ کے روزے کا حکم

سوال

کیا میری بیوی جواپنے دس ماہ کے بچے کودودھ پلارہی ہے کے لیے رمضان کے روزے چھوڑنا جائز ہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

دودھ پلانے والی اور اسی طرح حاملہ عورت کی دوحالتیں ہیں :

پہلی حالت :

روزہ اس پر اثرانداز نہ ہو ، اورنہ ہی اسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو اورنہ ہی اسے اپنے بچے کا خدشہ ہے ، ایسی عورت پرروزہ رکھنا واجب ہے اوراس کے لیے جائز نہیں کہ وہ روزہ ترک کرے ۔

دوسری حالت :

عورت کواپنے آپ یا پھر بچے کونقصان نہ خدشہ ہو ، اوراسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو توایسی عورت کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے لیکن وہ بعد میں اس کی قضاء میں چھوڑے ہوئے روزے رکھے گی ۔

اس حالت میں اس کے لیے روزہ نہ رکھنا افضل اوربہتر ہے بلکہ اس کے حق میں روزہ رکھنا مکروہ ہے ، بلکہ بعض اہل علم نے تویہ کہا ہے کہ اگر اسے اپنے بچے کا خطرہ ہو تو اس پر روزہ ترک کرنا واجب اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔

مرداوی رحمہ اللہ تعالی " الانصاف " میں کہتے ہیں :

ایسی حالت میں اس کے لیے روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔۔۔ اورابن عقیل رحمہ اللہ تعالی نے ذکرکیا ہے کہ : اگر حاملہ اوردودھ پلانے والی کوحمل کا بچے کو نقصان ہونے کا خطرہ ہو تواس کے لیے روزہ رکھنا حلال نہیں ، اوراگر اسے خدشہ نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا حلال ہے ۔ ا ھـ اختصار کے ساتھ ۔

دیکھیں : الانصاف للمرداوی ( 7 / 382 ) ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا :

جب حاملہ اوردودھ پلانے والی قوی اورچوک وچوبند اور بغیر کسی عذر کے روزہ نہ رکھے اورنہ ہی وہ روزے سے متاثر ہوتواس کیا حکم ہوگا ؟

حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لیے بغیر کسی عذر کے روزہ ترک کرنا جائے نہيں ، اوراگر وہ کسی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھیں توان پر بعد میں ان روزوں کی قضاء کرنا واجب ہوگی ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورجوکوئي مریض ہویا پھر مسافر اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا ہوگي ۔

یہ دونوں عورتیں بھی مریض کی مانند ہی ہیں ، اور جب ان کا عذر ہو کہ روزہ رکھنے سے انہیں بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہو تووہ روزہ نہ رکھیں اوربعد میں ان ایام کی قضاء کرلیں اوربعض اہل علم قضاء کے ساتھ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو گندم یا چاول یا کھجور وغیرہ بھی دینا ہوگي ۔

اوربعض علماء کرام کہتے ہیں کہ : ہرحال میں انہيں روزوں کی قضاء کرنا ہوگي ، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں اس لیے کہ کتاب وسنت میں کھانا کھلانے کی کوئي دلیل نہیں پائي جاتی ، اوراصل توبری الذمہ ہونا ہے ، یہاں تک کہ اس سے کوئي دلیل مشغول کردے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے اورقوی بھی یہی ہے ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 161 ) ۔

شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے یہ بھی پوچھا گيا کہ :

اگرحاملہ عورت کواپنے آپ یا اپنے بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہوتواس کے روزہ افطار کرنے کا حکم کیا ہے ؟

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

ہم اس کے جواب میں کہيں گے کہ حاملہ عورت دوحالتوں سے خالی نہيں:

پہلی حالت : عورت قوی اورچست ہو روزہ رکھنے سے اسے کوئي مشقت نہ ہو اورنہ ہی اس کے بچے پر اثرانداز ہو، توایسی عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے ، اس لیے کہ روزہ ترک کرنے کے لیے اس کے پاس کوئي عذر نہيں ۔

دوسری حالت : حاملہ عورت جسمانی کمزوری یا پھر حمل کے بوجھ کی وجہ وغیرہ سے روزہ رکھنے کی متحمل نہ ہو ، تواس حالت میں عورت روزہ نہيں رکھے گی ، اورخاص کرجب بچے کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تواس وقت بعض اوقات روزہ چھوڑنا واجب ہوجاتا ہے ۔

اگروہ روزہ نہ رکھے تو وہ بھی دوسرے ‏عذر والوں کی طرح عذر ختم ہونے کے بعد روزہ قضاء کرے گی ، اورجب ولادت سے فارغ ہوجائے تونفاس کے غسل کے بعد اس پران روزوں کی قضاء واجب ہے ، لیکن بعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حمل سے فارغ ہو تواسے کوئي اورعذر درپیش ہوجائے مثلا دودھ پلانا ، اس لیے کہ دودھ پلانے والی کھانے پینے کی محتاج ہوتی ہے اور خاص کر گرمیوں کے لمبے دنوں اورشدید گرمی میں تواسے روزہ نہ رکھنے کی ضرورت ہوگي تاکہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاسکے ۔

تو اس حالت میں بھی ہم اسے یہ کہيں گے کہ آپ روزہ نہ رکھیں بلکہ جب عذر ختم ہوجائے توترک کیے ہوئے روزوں کی قضاء کرلیں ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 162 ) ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہنا ہے :

حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ترک کرنے کی اجازت دی ہے :

انس بن مالک کعنبی کی حدیث ، جسے احمد اوراہل سنن نےصحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو روزہ چھوڑے کی رخصت دی اورانہیں مسافرکی مانند قرار دیا ہے ۔

تواس سے یہ علم ہوا کہ وہ دونوں بھی مسافر کی طرح روزہ ترک کرکے بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراہل علم نے یہ ذکر کیا ہے کہ یہ دونوں روزہ اس وقت نہيں رکھیں گی جب انہيں مریض کی طرح روزہ رکھنا مشکل ہواور اس میں مشقت ہویا پھر وہ دونوں اپنے بچے کا خطرہ محسوس کریں ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ اھـ

دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 15 / 224 ) ۔

اورفتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے :

حاملہ عورت پر حمل کی حالت میں روزے رکھنا واجب ہیں لیکن جب اسے روزہ رکھنے کی بنا پر اپنے آپ یا بچے پرخطرہ ہو توروزہ چھوڑنے کی رخصت ہے ، لیکن اسے ولادت اورنفاس کےبعد چھوڑے ہوئے روزے بطور قضاء رکھنا ہونگے ۔ اھـ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 226 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب