اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا بیوی کی خالہ اور پھوپھی محرمات ابدیہ میں شامل ہیں؟

سوال

کیا بیوی کی خالہ اور پھوپھی ایسے ہی ہیں جیسے بہن اور بھائی ابدی طور پر ایک دوسرے کے لیے محرم ہوتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بیوی کی خالہ اور پھوپھی خاوند کے لیے ایسی رشتہ دار نہیں ہیں جن سے نکاح نہیں ہو سکتا، یہ بھی اس کے لیے اجنبی عورتوں جیسی ہی ہیں، لہذا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی خلوت نشینی نہیں کر سکتا، اور نہ ہی ان سے مصافحہ کر سکتا ہے۔

کسی عورت کے ساتھ اسی کی خالہ ، یا کسی عورت کے ساتھ اسی کی پھوپھی کے ساتھ بیک وقت نکاح کی ممانعت جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کسی عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ، اور کسی عورت کو اس کی خالہ کے ساتھ بیک وقت عقد نکاح میں جمع نہ کیا جائے۔) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خاوند اب ان کے لیے محرم بن گیا ہے؛ کیونکہ یہاں عورت اور اس کی خالہ کو بیک وقت ، اسی طرح عورت اس کی پھوپھی کو بیک وقت عقد نکاح میں جمع کرنا منع ہے، یہاں ان میں سے کسی کے ساتھ نکاح کی حرمت مقصود نہیں ہے، چنانچہ اگر بیوی کی وفات ہو جائے یا اسے طلاق ہو جائے تو خاوند اپنی بیوی کی خالہ یا پھوپھی سے بعد میں نکاح کر سکتا ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ خالہ بھانجی، پھوپھی اور بھتیجی کو ایک عقد میں جمع کرنے کی ممانعت کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ نہ کرنے کی صورت میں شریعت کا اصل مقصد ہی فوت ہو جائے گا، مثلاً بیوی کی پھوپھی یا خالہ سے پردہ نہ ہونے کی بنا پر ممکن ہے کہ مرد یا عورت ایک دوسرے کی طرف مائل ہو جائیں اور مرد اپنی بیوی کو طلاق اس لیے دے دے کہ بیوی کی پھوپھی یا خالہ سے شادی کر سکے، یا بیوی کی بھتیجی یا بھانجی سے شادی کرے، یا اسی طرح کا کوئی اور ناگوار واقعہ بھی ہو سکتا ہے، جس کی بنا پر رشتے داروں میں دراڑیں پڑیں گی، بغض اور کینہ پھیلے گا۔

دائمی فتوی کمیٹی سے پوچھا گیا:
میری ایک لڑکی سے شادی ہوئی ہے اور اس کی پھوپھی بھی ہے یعنی میری اہلیہ کے والد کی بہن، تو کیا وہ مجھ سے بغیر پردے کے بات کر سکتی ہیں اور کیا میں انہیں سلام کر سکتا ہوں، یہ جائز ہے یا نہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"آپ کی بیوی کی پھوپھی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ آپ کے سامنے چہرہ کھولے، نہ ہی آپ ان سے مصافحہ کر سکتے ہیں؛ کیونکہ آپ اس کے محرم نہیں ہیں۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔" ختم شد
دائمی فتوی کمیٹی : پہلا ایڈیشن (17/436)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب