سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

خواتین کیلئے قبروں کی زیارت کی اجازت سے متعلق احادیث کا جواب

210114

تاریخ اشاعت : 22-02-2015

مشاہدات : 27230

سوال

سوال: میں نے ایک فتوی پڑھا ہے کہ کسی عورت کیلئے قبروں کی زیارت کرنا جائز نہیں ہے، لیکن مجھے کچھ دلائل ملے ہیں جن سے عورتوں کیلئے قبروں پر جانے کی اجازت ملتی ہے، مثلاً: بسطام بن مسلم بصری ابو تیاح یزید بن حمید سے بیان کرتے ہیں، وہ عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے کہ: "ایک دن عائشہ رضی اللہ عنہا قبرستان سے واپس آرہی تھیں، تو میں نے ان سے عرض کیا: "ام المؤمنین! آپ کہاں سے آرہی ہیں؟" تو انہوں نے کہا: "میں اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابو بکر کی قبر سے واپس آرہی ہوں" تو میں نے عرض کیا: "کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبروں کی زیارت سے منع نہیں کرتے تھے؟" تو انہوں نے جواب دیا: "ہاں پہلے آپ نے روکا تھا، پھر بعد میں ہمیں قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت دی تھی" اس حدیث کو بیہقی اور حاکم نے روایت کیا ہے، اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ جس میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ قبروں کی زیارت کیلئے وہ کونسی دعا پڑھیں، اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح الجامع " میں مسلم اور نسائی سے نقل کیا ہے، تو خواتین کیلئے اجازت دینے والی ان احادیث کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

خواتین کیلئے قبروں کی زیارت کرنے کے بارے میں اہل علم کا شروع سے  اب تک اختلاف رہا ہے، اور سوال میں مذکور احادیث  انہیں دلائل میں سے ہیں جنہیں خواتین کیلئے قبروں کی زیارت جائز قرار دینے والے  اپنی دلیل بناتے ہیں۔

اہل علم  کے دو اقوال میں سے راجح یہی ہے کہ خواتین کیلئے قبروں کی زیارت جائز نہیں ہے، اس بارے میں مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (8198) اور (131847) کا مطالعہ کریں۔

خواتین کو قبروں کی زیارت سے منع کرنے والوں نے مذکورہ دونوں احادیث کے درج ذیل جوابات دیے ہیں:

پہلی حدیث کا جواب: اس کا جواب دو طرح سے دیا گیا ہے:

اول: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا  جب گھر سے نکلی تھیں تو قبرستان کی زیارت سے نہیں گئیں تھیں، بلکہ وہ تو حج کیلئے جاتے ہوئے راستے میں اپنے بھائی کی قبر سے  گزریں تھیں، اور اس طرح زیارت میں کوئی حرج نہیں ہے۔

چنانچہ امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ ہے کہ اس حدیث کے سنن ترمذی میں موجود الفاظ "محفوظ" ہیں ، اگرچہ اس کے بارے میں بھی کچھ کلام ہے[ابن قیم رحمہ اللہ کی مراد یہ روایت ہے جسے: عبد اللہ بن ابی ملیکہ روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں: عبد الرحمن بن ابو بکر "حُبشِی" مقام پر فوت ہوئے، پھر انہیں مکہ لایا گیا، تو انہیں وہیں دفن کیا گیا، چنانچہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ آئیں تو عبد الرحمن بن ابو بکر کی قبر پر بھی آئیں۔۔۔ پھر انہوں نے کہا: "اللہ کی قسم اگر میں  تمہارے فوت ہونے کے وقت  موجود ہوتی ، تو تمہیں وہیں دفن کرتی جہاں تم فوت ہوئے، اور اگر میں تمہاری وفات کے وقت موجود ہوتی تو میں آج تمہاری قبر کی زیارت نہ کرتی" ترمذی: (1055)، البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف ترمذی میں ضعیف قرار دیا ہے: (1055) ]
 عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ حج کرنے کیلئے آئیں، تو اپنے بھائی کی قبر کے پاس سے انکا گزر ہوا، تو آپ وہاں کچھ دیر کیلئے کھڑی ہوگئیں، اور اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے، بلکہ حرج والی بات تو ان خواتین کے بارے میں ہے جو قبرستان کی زیارت کے ارادے سے ہی گھر سے نکلتی ہیں ۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا  قصداً اور ارادۃً  اپنے بھائی کی قبر پر گئیں  تھیں، کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ: " اگر میں تمہاری وفات کے وقت موجود ہوتی تو میں آج تمہاری قبر کی زیارت نہ کرتی " تو اس سے تو یہ مزید واضح ہو جاتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک بھی قبروں کی زیارت کرنا جائز نہیں تھا، اگر  ایسا نہ ہو تو عائشہ رضی اللہ عنہا  کی اس بات کا کوئی معنی نہیں رہتا ہے" انتہی
" تهذيب سنن أبی داود " (9/44)

دوم:
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ترمذی کی روایت کے مطابق یہ کہنا: " اگر میں تمہاری وفات کے وقت موجود ہوتی تو میں آج تمہاری قبر کی زیارت نہ کرتی " اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کیلئے زیارت اسی طرح مستحب نہیں ہے جیسے مردوں کیلئے مستحب ہے؛ کیونکہ اگر بات ایسے ہی ہوتی تو عائشہ رضی اللہ عنہا کیلئے بھی ہر حالت میں [یعنی : وہ جنازے کے وقت موجود ہوتیں یا نہ ہوتیں]زیارت اسی طرح مستحب ہوتی جیسے مردوں کیلئےمستحب ہے،  یہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے، جیسے کہ مجموع الفتاوی: (24/345) میں ہے کہ : "عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ : انکے نزدیک بھی خواتین کیلئے قبروں کی زیارت منع تھی"

اسی طرح آپ رضی اللہ عنہا  کا یہ کہنا کہ: " پہلے آپ نے روکا تھا، پھر بعد میں ہمیں قبروں کی زیارت کرنے کا حکم دیا " اس کا بھی دو طرح سے جواب  ہے:

اول: یہ تاویل ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کی طرف سے اجتہاد کی بنیاد پر تھی، چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ " تهذيب السنن " (9/45) میں کہتے ہیں:
"عائشہ رضی اللہ عنہا نے خواتین  کے قبرستان میں داخل ہونے کے بارے میں تاویل کی، جیسے کہ خواتین کو قبرستان میں جانے کی اجازت دینے والے دیگر افراد نے تاویل کی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حجت اور دلیل نبی معصوم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہی بن سکتا ہے، راوی کی تاویل حجت نہیں بن سکتی، ہاں راوی کی تاویل اسی وقت حجت بن سکتی ہے جب اس کے مقابلے میں زیادہ وزنی بات نہ ہو، جبکہ اس تاویل کے مقابلے میں ممانعت کی احادیث موجود ہیں" انتہی

دوم:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے خواتین کو قبرستان کی زیارت کیلئے کوئی دلیل نہیں ملتی ہے، اس لئے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے [عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے] کہا: کہ قبروں سے زیارت کی ممانعت سب کیلئے عام ہے، تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس اعتراض کو رد کرنے کیلئے کہا:"یہ ممانعت منسوخ ہوچکی ہے"، بات ایسے ہی ہے کہ قبروں کی زیارت سے ممانعت منسوخ ہو چکی ہے، لیکن [عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے] وہ ممانعت ذکر نہیں کی تھی جو خواتین کے ساتھ خاص ہے، اور اس ممانعت میں خواتین کی طرف سے قبروں کی زیارت پر لعنت کا ذکر بھی ہے۔
یہ بات عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول : " ہمیں قبروں کی زیارت کرنے کا حکم دیا " سے آشکار ہوتی ہے، وہ اس طرح کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گفتگو سے یہ پتا چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں کی زیارت کا حکم دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا کسی چیز کے بارے میں حکم دینا کم از کم استحباب کا درجہ رکھتا ہے، اور قبروں کی زیارت کیلئے استحباب صرف مردوں کیلئے خاص ہے، لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا  یہ بیان کر رہی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے آخری حکم نے پہلی ممانعت کو منسوخ کر دیا؛ لہذا عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان سے دلیل بنتی ہی نہیں  کہ عورتوں کیلئے بھی قبروں کی زیارت اصل میں جائز تھی، اور اگر عائشہ رضی اللہ عنہا قبروں کی زیارت کیلئے حکم خواتین کیلئے  بھی سمجھتی ہوتیں تو وہ بھی اسی طرح قبروں کی زیارت کرتیں جیسے مرد کرتے ہیں، اور اپنے بھائی کے بارے میں یہ کبھی نہ فرماتیں: " میں تمہارے جنازے میں شریک ہوتی تو میں تمہاری [قبر ]کی زیارت نہ کرتی "" انتہی
"مجموع الفتاوى" (24/353)

*دوسری حدیث کا جواب:

پہلا جواب یہ ہے کہ: عائشہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   سے قبرستان کی زیارت کیلئے دعا  پوچھنا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے انہیں دعا کی تعلیم دینا، اس بات پر محمول ہوگا کہ : اگر عائشہ رضی اللہ عنہا قبروں کی زیارت کا ارادہ کیے بغیر راستے میں کسی قبر کے پاس سے گزرتی ہیں تو وہ کیا دعا پڑھیں، یہی وجہ ہے کہ زیارت قبور کی دعا والی احادیث کے الفاظ میں  زیارت کے الفاظ صریح طور پر نہیں ہیں، بلکہ عائشہ رضی اللہ عنہا نےیوں کہا ہے: "میں انکے کیلئے کیا کہوں؟"جیسے کہ یہ لفظ مسلم: (974)، نسائی: (2037)

دوسرا جواب:
 یہ مسئلہ براءت اصلیہ پر محمول تھا ، پھر اس کے بعد مردوں اور خواتین سب  کیلئے قبروں کی زیارت منع قرار دے دی گئی، تیسرے مرحلے میں صرف مردوں سے ممانعت منسوخ کردی گئی، لیکن عورتوں کیلئے ممانعت باقی رہی؛ کیونکہ حدیث ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں کی زیارت کرنے والی خواتین پر لعنت فرمائی"اس حدیث کو ترمذی: (1056)، ابن ماجہ: (1576) نے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے " أحكام الجنائز " (ص 185) میں اسے صحیح کہا ہے۔

تیسرا جواب:
عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے انہیں قبرستان کی دعا سیکھانے کا معاملہ  تبلیغ پر محمول کیا جائے گا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سیکھ کر عائشہ رضی اللہ عنہا نے آگے سیکھایا، اور اس قسم کے مسائل احادیث میں بہت زیادہ ہیں، کہ انہوں نے بہت سے مسائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب سے لوگوں تک پہنچائے۔

اس حدیث کے مزید جوابات جاننے کیلئے آپ ایک رسالے کا مطالعہ فرمائیں جس کا عنوان ہے: " جزء في زيارة النساء للقبور " از فضیلۃ الشیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ، ("اجزاء حدیثیہ"میں صفحہ : 129  کے بعد)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب