جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

بدكاري ( لواطت ) كےمتعلق مسلمانوں كا موقف

2104

تاریخ اشاعت : 05-04-2005

مشاہدات : 7060

سوال

ميں اس وقت ايشيا اور خاص كرمليشيا ميں لواطت ( بدكاري ) جيسي فحاشي كے عام ہونےپر ريسرچ كررہا ہوں، آپ سےميري گزارش ہےكہ مندرجہ ذيل سوالوں كےجواب عنايت فرمائيں:
1- مليشيا ميں ( مسلمانوں اور غيرمسلموں كو ) لواطت جيسي فحاشي سے كيسےنپٹنا چاہيے؟
2- ايسےلوگوں كوسخت سےسخت كس طرح كي سزا دي جاسكتي ہے؟
3 - معاشرے كولواطت كےبارہ ميں كس طرج سمجھايا جاسكتا ہے؟
4 - كيا قانونا لواطت كي اجازت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مليشيا جيسےملك ميں ہم جنس پرستي كي حالت كےبارہ ميں ہميں تو كوئي تجربہ اور علم نہيں كہ وہاں كس حالت ميں ہے، ليكن اس معاشرے كے مسلمانوں كواس گندے اور فحش كام سےمكمل نفرت و كراہيت ہوني چاہيے، اس ليےكہ جس دين يعني دين اسلام كےوہ پيروكارہيں اس نےاس فحش كام كو شديدحرام قرارديا ہےاوردنيا ميں بھي اس كي المناك سزا مقرر كي ہے اور آخرت ميں بھي اسےدردناك سزا ملےگي اور ايسا كيوں نہ ہو جب كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےاس كےمتعلق فرمايا:

( تم جسےبھي قوم لوط كا عمل كرتےہوئےپاؤ تو كرنےوالے اور جس كےساتھ كيا گيا ہو دونوں كوقتل كردو ) يعني جب وہ ايسا كرنےپر راضي ہو امام ترمذي نےسنن ترمذي ميں اسے روايت كيا ہے ديكھيں ترمذي ( 1376 )

علماء اسلام مثلا امام شافعي، امام مالك، اور امام احمد، اسحاق رحمہم اللہ تعالي كا كہناہےكہ: اسے رجم كي حد لگائي جائےگي چاہے وہ شادي شدہ ہو يا كنوارہ.

اور وہ شخص جو اللہ تعالي كي فطرت كي مخالف كركےايسا كام كرتا ہے جومرد كو مرد اور عورت كوعورت سےاكتفاء كرنےاور خاندان اجاڑنےاوران ميں فساد بپا كركےانساني نسل پر اثر انداز ہوتا اور معاشرے ميں بگاڑ اور فساد پيدا كركے خطرناك بيمارياں پيدا كرےاور بےگناہ لوگوں كوضرر اور نقصان سے دوچار كرنےكےساتھ ساتھ يہ اذيت بچوں ميں بھي منتقل كرے، اور عمومي طور پر زمين ميں فساد بپا كرے بلاشك وشبہ يہ بہت ايسي آفت ہے جس كي بيخ كني كرنا ضروري ہے اور اسےجڑ سےكاٹ پھينكنا ضروري ہے.

اس موضوع پر ريسرچ كرنےوالےہوسكتا ہے آپ كو يہ ريسرچ اس دين اسلام كي عظمت اوراس كےقوانين وشرايع كي باريكي كي بلندي اوردين اسلام كونازل كرنےوالے كي حكمت كي طرف لےجائے، اللہ تعالي سےميري دعا ہے كہ وہ آپ كوكاميابي اورتوفيق عطا فرمائے، اللہ تعالي ہي سيدھےراہ كي ہدايت دينے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد