جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ایام تشریق میں واجب روزوں کی قضاء جائز نہیں

سوال

لاعلمی سےمیں نے ایام تشریق میں رمضان المبارک کے روزوں کی قضاء کرلی ، توکیا مجھے ایام تشریق میں رکھے ہوئے روزے شمار کرنے چاہییں یا مجھے ایام تشریق کے بعد دوبارہ یہ روزے رکھنے ہوں گے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عید الاضحی کے بعدتین دنوں کو ایام تشریق کہا جاتا ہے ، جوگیارہ ، بارہ ، اورتیرہ ذی الحجہ بنتے ہیں ان ایام میں روزے رکھنا حرام ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

نبیشہ الھذلی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں )

صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1141 ) ۔

اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

عقبہ بن عامررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( یقینا یوم عرفہ ، یوم النحر اورایام تشریق ہماری اہل اسلام کی عید ہے اوریہ کھانے پینے کے ایام ہیں ) ۔

سنن نسائي حدیث نمبر ( 3004 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 773 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2419 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج تمتع یا حج قران میں قربانی نہ پانے والے شخص کوایام تشریق کے روزے رکھنے کی اجازت دی ہے ۔

عائشہ اور ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہم بیان کرتے ہیں کہ :

( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق کے روزے صرف اسے رکھنے کی اجازت دی ہے جوقربانی نہ پائے ) ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر (1998)

لھذا اسی لیے جمہور علماء کرام ان ایام میں نفلی یا پھر بطور قضاء یا نذر کےروزے رکھنے سے منع کرتےہیں ، بلکہ اگر وہ ان ایام میں روزے رکھ لےتو اسے باطل قرار دیتے ہيں ۔

راجح مسلک بھی جمہور علماء کرام کا ہی ہے اورصرف اس سے وہ حاجی مستثنی ہوگا جسے قرباری نہيں ملتی تو وہ ایام تشریق میں روزے رکھ سکتا ہے ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

( اور اسی طرح عیدالاضحی اورایام تشریق میں بھی روزے نہيں رکھیں جائيں گے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ، لیکن صرف اتنا ہے کہ ایام تشریق میں حج تمتع اورحج قران میں جو قربانی نہ کرسکتا ہو وہ روزے رکھ سکتا ہے اس کی احادیث میں دلالت پائي جاتی ہے ۔۔۔۔

لیکن یہ کہ ان ایام میں نفلی یا پھر کسی اورسبب سےروزے رکھے جائيں وہ عیدکے دن کی طرح جائز نہیں ) ۔

فتاوی رمضان جمع اشرف عبدالمقصود صفحہ ( 716 ) سے نقل کیا گيا ہے

اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

( لھذا قربانی نہ پانے والے متمتع اورقارن حاجی کےلیے ان تین ایام ( تشریق ) میں روزے رکھنا جائز ہے تا کہ روزے رکھنے سے قبل ہی موسم حج ختم نہ ہو جائے ، اوراس کے علاوہ کسی اورکے لیے روزے رکھنا جائز نہیں ، حتی کہ اگر انسان پردماہ کے مسلسل روزے بھی ہوں اوروہ رکھ رہا ہو تووہ عید اوران تین دنوں میں روزے نہیں رکھے گا بلکہ ان ایام کے بعد اپنے روزں میں تسلسل رکھے گا ) ۔ دیکھیں فتاری رمضان صفحہ ( 727 ) ۔

لھذا اس بنا پر ہم یہ کہيں گے کہ آپ نے جوایام تشریق میں رمضان کے روزوں کی قضاء کی ہے وہ صحیح نہیں بلکہ آپ کو دوبارہ رکھنے ہوں گے ۔

اور پھر رمضان المبارک کے روزوں کی قضاء میں تسلسل اورتتابع شرط نہيں کہ یہ روزے مسلسل رکھیں جائيں اس لیے آپ قضاءکے روزے مسلسل بھی رکھ سکتی ہیں اورایک ایک کر کے بھی ۔

آپ مزيد تفصیل کے لیے سوال نمبر ( 21697 ) کے جواب کا بھی مطالعہ کریں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب