الحمد للہ.
بچوں کی اچھی تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے، والدین ایسے اسباب اور وسائل مہیا رکھیں جن سے بچوں کی دینی اور دنیاوی تربیت ہو سکے۔
اگر بچہ پھر بھی نافرمان اور بد سلوک ہو تو والدین مزید محنت کریں اور بچے کی سدھرنے اور اسے راہِ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کریں ۔ اسے نصیحت کرتے رہیں، اگر منفی رد عمل دے تو صبر سے کام لیں، اس کے لیے دعائیں کریں، اسے اچھے دوست مہیا کریں، ایسے لوگوں کے ساتھ اس کی دوستی بنائیں جو اس سے ملتے جلتے رہیں اور اس کی صحیح رہنمائی بھی کریں۔
یہاں بچے کے دوست ، عزیز رشتہ دار اور بھائیوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ بچے والدین کی حسب استطاعت اعانت کریں۔
لیکن اگر بچے میں موجود برائی بڑھتی چلی جائے اور ناقابل برداشت ہو جائے جیسے کہ سوال میں بتلایا گیا ہے ، اور بچے کو زبانی سرزنش مفید ثابت نہ ہو تو پھر جس طرح بھی ممکن ہو سکے بچے کو برائی سے روکنا لازم اور واجب ہے، مثلاً: اسے جسمانی سزا کی دھمکی دی جائے، یا واقعی جسمانی سزا دی جائے، یا خاندان کے دیگر مردوں کو اس مسئلے میں شامل کیا جائے، اور اگر یہ سب حربے کارگر ثابت نہ ہوں تو پھر اسے سرکاری اداروں کے حوالے کیا جائے۔ ایسے بچے کی برائی کے بارے میں سستی سے کام لینا درست نہیں ہے، نہ ہی اس کی ان حرکتوں سے چشم پوشی کی جا سکتی ہے بلکہ معاملہ سنگین ہونے سے پہلے اس کی بیخ کنی کرنا لازم ہے۔
چنانچہ پہلے نصیحت، وعظ، سمجھانے بجھانے سے معاملہ سدھانے کی کوشش کی جائے، اسے اللہ تعالی سے ڈرائیں اور اللہ کی طرف رغبت دلائیں، اسے والدین کے حقوق بتلائیں، بہن کے حقوق بتلائیں، گھر میں آنے والے مہمانوں کے حقوق بتلائیں، اسے بتلائیں کہ برے اخلاق کی وجہ سے اسے گھر والے، آس پاس کے پڑوسی، اور دیگر لوگ ناپسند کرنے لگیں گے، بچے کو بار بار اس چیز پر مجبور کیا جائے لیکن انداز صبر و حکمت اور وعظ و نصیحت سے بھر پور ہونا چاہیے۔
اسی طرح اس بچے کے بھائیوں کو بھی معاونت کرنی چاہیے، کہ اپنے بھائی کے ساتھ حکمت اور حلم سے کام لیتے ہوئے برتاؤ کریں، نرمی سے نصیحت کریں اور کوئی بھی اس کے ساتھ سختی سے بات نہ کرے۔
اگر پھر بھی بچہ اپنی روش پر اڑا رہے تو والدین ، بھائی ، بہن سب اس سے قطع کلامی کر لیں کوئی بھی اس سے نہ بولے، نہ ہی اس کے ساتھ کوئی معاملہ کریں، لیکن دل ہی دل میں یہ امید جگائے رکھیں کہ اللہ تعالی اسے سدھار دے، اور اس کے لیے دعائیں جاری رکھیں۔
اگر پھر بھی بچہ باز نہ آئے تو پھر سرکاری اداروں کو اطلاع دی جائے اور متعلقہ اداروں کے حوالے کر دیا جائے جو اس کے شر سے باز رکھیں۔
ایسے بچے کے ساتھ ڈھیل دینے والا رویہ نہ اپنایا جائے؛ کیونکہ اس بچے میں برائی اس کی ذات سے نکل کر اہل خانہ، لوگوں اور محلے داروں کو بھی نقصان پہنچانے لگی ہے۔
ان تمام امور سے بڑھ کر والدین اور گھر کے افراد کو چاہیے کہ اپنا اللہ تعالی کے ساتھ تعلق چیک کریں؛ کیونکہ عام طور پر اس قسم کی برائیاں ذاتی گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہیں کہ انسان گھر میں کسی گناہ پر مصر ہوتا ہے ، جس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔
علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ میاں بیوی سے ہونے والی شرعی غلطیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“یہ تو یقینی بات ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی بہت کم ہوتی ہے، اور اگر دونوں کے درمیان الفت ہو بھی سہی تو باجرے کے دانے جتنی ہوتی ہے، اور اگر دونوں کو اللہ تعالی اولاد دے دے تو عام طور پر اولاد نافرمان نکلتی ہے، پھر بچہ ایسے کام کرنے میں ملوث ہو جاتا ہے کہ جو کہ بالکل زیب نہیں دیتے، یہ سب امور اس وجہ سے ہیں کہ میاں بیوی دونوں نے مل کر حقوق اللہ کی پاسداری نہیں کی ہوتی ۔” ختم شد
“المدخل” (2/ 170)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (175164) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم