اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا بے نمازی کے ساتھ شادی "زنا " شمار ہوگی؟ اور ایسی حالت میں بچوں کا شرعی حکم کیا ہوگا؟

213402

تاریخ اشاعت : 20-05-2014

مشاہدات : 15820

سوال

بے نماز خاوند اور بیوی کا آپس میں تعلق کیسا ہے، کیا اسے زنا کہا جائےگا؟ ایسی حالت میں عورت کیا کرے؟ اور بچوں کا شرعی حکم کیا ہوگا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

عورت کیلئے ضروری ہے کہ بااخلاق، دیندار، اور نیک صالح شخص کوہی بطورِ خاوند پسند کرے، نماز ارکانِ دین کا ایک بڑا رکن ہے، بلکہ یہی اسلام کا دوسرا رکن ہے، اس لئے کوئی بھی خاتون دین کے ستون نماز میں سستی کرنے والے شخص سے شادی قبول نہ کرے!!

دوم:

اگر کسی خاتون نے بالکل بے نماز شخص سے شادی کرلی تو اس شادی کے درست ہونے کے بارے میں علماء کی مختلف آراء ہیں، اور جمہور اہل علم ایسی شادی کے بارے میں درست ہونے کے قائل ہیں؛ کیونکہ بے نماز شخص جو نماز کی فرضیت کا منکر نہیں ہے، ایسا شخص فاسق مسلمان ہے، کافر نہیں ہے۔

جبکہ کچھ علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ یہ شادی درست نہیں باطل ہے؛ کیونکہ ان نزدیک مکمل طور پر نمازیں نہ پڑھنے والا شخص کافر ہے، مسلمان نہیں، اس بارے میں اقوال کی تفصیل سوال نمبر: (194309)کے جواب میں گزر چکی ہے۔

بہر حال ، جس خاتون نے کسی بے نماز شخص سے اس نظریہ کی بنیاد پر شادی کی کہ تارکِ نماز شخص کافر نہیں ہوتا ، یا اسے اس بارے میں کسی حکم کا علم ہی نہیں تھا، یا پھر مقامی طور پر رائج فتوی یہی تھا کہ تارک نماز شخص گناہگار مسلمان ہے، تو اس خاتون نے اسی فتوی پر اعتماد کیا، تو ایسی حالت میں اسکی شادی کے بارے میں باطل ہونے کا فتوی نہیں لگایا جائے گا۔

بلکہ اگر یہ بھی کہہ دیا جائے کہ تارک نماز کی شادی باطل ہے؛ تب بھی مذکورہ نکاح کو "زنا" نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ اہل علم کا اس بارے میں اختلاف معتبر ہے، اور ایسی حالت میں اسے زنا سے موصوف نہیں کیا جاسکتا۔

سوم:

اگر خاوند کبھی نماز پڑھتا ہے، اور کبھی نہیں پڑھتا، تو راجح حکم یہی ہے کہ اس پر کفر کا فتوی نہیں لگایا جائے گا، اس کی تفصیل سوال نمبر: (109220)کے جواب میں گز چکی ہے۔

چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"بہت سے لوگ، بلکہ اکثر لوگ بہت سے ممالک میں پانچوں نمازوں کی پابندی نہیں کرتے، اور نہ ہی وہ مکمل طور پر نمازوں کے تارک ہوتے ہیں، بلکہ کبھی پڑھ لی اور کبھی نا پڑھی، تو ایسے لوگوں میں ایمان اور نفاق دونوں موجود ہیں، اور ان کے ظاہری اسلام کو دیکھ کر وراثت وغیرہ کے احکامات جاری ہونگے" انتہی۔

"مجموع الفتاوى" (7/617)

چہارم:

ہر ایسا نکاح جس کے بارے میں میاں بیوی کا نظریہ یہ تھا کہ ہماری شادی درست ہے، یا تو اس بنا پر کہ انہیں حکم کا علم نہیں تھا، یا اس شادی کے جواز پر کسی اہل علم کے فتوی پر اعتماد کرتے ہوئےانہوں نے شادی کی، تو ایسی صورتِ حال میں بھی نکاح درست ہوگا، اور اس پر شرعی احکامات لاگو ہونگے، اور اولاد کی نسبت بھی والدین کی طرف ہی کی جائے گی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ ہر ایسا نکاح جس کے بارے میں خاوند کا نظریہ یہ تھا کہ ہماری شادی درست ہے، اور پھر اس نے ہمبستری بھی کی، تو پیدا ہونے والی اولاد کی نسبت اسی کی طرف کی جائے گی اور آپس میں وراثت بھی تقسیم ہوگی، اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔۔۔ کیونکہ نسب ثابت کرنے کیلئے نکاح درست ہونا ضروری نہیں ہے"

اسی ایک اور جگہ فرمایا: "جس نے کسی عورت سے سب کے ہاں متفق طور پر فاسد نکاح کیا، یا اس نکاح کے فاسد ہونے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا تھا، اور خاوند نے اپنی بیوی سمجھتے ہوئے عورت سے ہمبستری بھی کی، تو ایسی صورت میں اولاد کا نسب نامہ اسی کی طرف ملایا جائے گا، اور وہ تمام مسلمانوں کے متفقہ فیصلہ کے مطابق آپس میں وارث بھی بنیں گے"انتہی

"مجموع الفتاوى" (34/13)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:

"اس نکاح کی وجہ سے حد نہیں لگے گی،بشرطیکہ کہ [معتبر انداز ]کے مطابق اس نے اپنی شادی کو درست سمجھا ہو، ایسی صورت میں اولاد کا نسب اسی کی طرف ہوگا، اور حق مہر بھی ادا کرنا ہوگا"انتہی

"الفتاوى الكبرى" (3/132)

پنجم:

اگر خاوند عام طور پر نماز وں تارک ہے، تو بیوی پر ضروری ہے کہ اسے اس وقت تک نصیحت کرے، اور وعظ کرتے ہوئے اللہ سے ڈرائے، کہ وہ اس عظیم گناہ کو ترک کردے، کیونکہ متعدد علمائے کرام کے ہاں نماز چھوڑنا کفر ہے۔

بیوی پر ضروری ہے کہ بار بار نصیحت کرنے سے اکتائے مت۔

اور اگر کسی خاتون کا خاوند بالکل نماز نہیں پڑھتا تو اسکے لئے ہماری نصیحت یہی ہے کہ اگر ممکن ہو سکے تو اس سے علیحدگی اختیار کرلے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب