اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

خاتون نے منصوبہ بندی  کیلئے گولیاں استعمال کیں، تو حیض ختم ہو گیا، تو کیا نماز روزے کا اہتمام کریگی؟

213649

تاریخ اشاعت : 16-05-2015

مشاہدات : 5995

سوال

سوال: منصوبہ بندی کیلئے استعمال کی جانے والی گولیاں ماہواری بند کر سکتی ہیں، اور یہ اس وقت تک بند رہتی ہے جب تک آپ گولیاں کھائیں۔
اس صورت میں ایسی عورت کے نماز اور روزے کا کیا حکم ہے؟ کیا ماہواری منقطع ہوئے بغیر بھی نماز پڑھ سکتی ہے؟ سائلہ بہن یہ گولیاں کسی شرعی عذر کی بنا پر استعمال کر رہی ہے، حیض کو روکنا اس کا مقصد نہیں ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

منصوبہ بندی کیلئے مختلف وسائل کا استعمال ضرورت کے وقت کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ کہ خاوند کی اجازت، اور طبی ماہرین کے مشورے سے ہو، اس بارے میں مزید جاننے کیلئے سوال نمبر: (32479) اور (21169) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

اگر ماہواری ان گولیوں یا کسی بھی  چیز کی وجہ  سے  منقطع  ہو جائے تو ایسی خاتون پر طاہر ہونے کا حکم لگایا جائے گا، چنانچہ وہ روزہ، نماز، مسجد میں جانے سمیت تمام امور سر انجام دے گی جو طہر والی خواتین سر انجام دیتی ہیں؛ کیونکہ  ان امور سے مانع خونِ حیض کا آنا تھا، چونکہ  خون نہیں آرہا ، تو مانع  ختم ہے، اس لئے طہر والی خواتین کی طرح تمام امور سر انجام دے گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مستحاضہ خاتون  کے بارے میں حکم اس کی دلیل ہے کہ : (جب حیض کا خون ہو گا تو  یہ معروف سیاہ رنگ کا ہوگا، چنانچہ جب سیاہ رنگ کا خون ہو تو نماز کی ادائیگی سے رک جائیں، اور اگر کسی اور رنگ کا خون ہو تو وضو کریں، اور نماز پڑھیں ) ابو داود: (304) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح سنن ابو داود" میں حسن کہا ہے۔

اسی طرح " الموسوعة الفقهية " (18/327) میں ہے کہ:
"حنبلی فقہاء نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ مانع حیض دوا استعمال کرنا خواتین کیلئے جائز ہے، بشرطیکہ اس کا نقصان نہ ہو، نیز اس کیلئے خاوند  کی اجازت بھی ضروری ہے؛ کیونکہ خاوند افزائش نسل کا حقدار ہے، تاہم مالک رحمہ اللہ نے اسے مکروہ  سمجھا ہے، انہیں خدشہ ہے کہ اس طرح کرنے سے خاتون کو جسمانی نقصان پہنچ سکتا ہے۔۔۔ بہر حال اگر عورت ایسی دوا استعمال کرے، اور اس کا حیض بند ہو جائے تو  ایسی عورت کا حکم طہر والا ہی ہے" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور اگر مانع حیض ادویات استعمال کرنے کی وجہ سے حیض بند ہو گیا ، تو ایسی عورت نماز اور روزے کا اہتمام کریگے، روزے کی قضا نہیں دے گی، کیونکہ یہ خاتون حائضہ نہیں ہے، چونکہ حکم اسی وقت لگایا جاتا ہے جب علت پائی جائے[اور یہاں علت یعنی حیض نہیں ہے، اس لئے حائضہ ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا] اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ )
ترجمہ: وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں: "وہ گندگی ہے" چنانچہ تم حیض میں عورتوں کے قریب بھی مت جاو یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں، چنانچہ جب وہ پاک ہو جائیں تو تم وہیں سے آؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، بیشک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں  اور طہارت پسند لوگوں سے محبت کرتا ہے"

چنانچہ جس وقت یہ گندگی موجود ہوگی، اسکا حکم لاگو ہوگا، اور جب  گندگی موجود نہیں ہوگی، تو اس کا حکم بھی لاگو نہیں ہوگا" انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (19/260)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب