بدھ 19 جمادی اولی 1446 - 20 نومبر 2024
اردو

غیر مسلم ملک میں معدنیات نکالنے کا کام کرتا ہے، اور بسا اوقات زیورات بھی ملتے ہیں۔

215129

تاریخ اشاعت : 03-04-2016

مشاہدات : 5102

سوال

سوال: میں غیر مسلم ملک میں رہتا ہوں، اور حکومت کی زیر ملکیت جگہوں پر معدنیات کی تلاش کیلئے جاتا ہوں، اور بسا اوقات مجھے سونے کے زیورات انگوٹھی وغیرہ مل جاتی ہے، یہ زیورات زیر زمین مدفون ہوتے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ کئی برسوں سے یہ زیورات مدفون ہوں۔
میرا سوال یہ ہے کہ میرے اس کام کا کیا حکم ہے، اور مجھے مدفون چیزیں ملتی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کسی غیر مسلم ملک میں ایسی جگہ معدنیات تلاش کرنا جو کسی کی ملکیت میں نہیں ہے اس کا وہی حکم ہے  جو مسلم ممالک میں معدنیات تلاش کرنے کا ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ غیر مسلم علاقوں میں کسی مسلمان کو ملنے والی قیمتی اشیاء کے سیاق میں کہتے ہیں:
"ایسی چیزوں  کے مباح ہونے  کا علم ایسے ہوگا کہ : مسلم علاقوں  کو دیکھا جائے؛ چنانچہ  جو چیز وہاں جائز ہے مثال کے طور پر : مسلم علاقے میں کوئی ایسا درخت  جو کسی کی ملکیت نہیں ہے، یا زمینی و سمندری شکار  کر لیتا ہے ، اور اسی طرح کی کوئی چیز غیر مسلم علاقے میں بھی حاصل کر لیتا ہے تو یہ جائز ہے، ان جائز اشیاء میں صحرائی یا پہاڑی علاقے سے تیار کردہ کمان، لکڑی یا پتھر کا پیالہ ، ہنڈیا یا کوئی اور چیز  بھی شامل ہے ، شرط یہ ہے کہ جن چیزوں  کو اپنی تحویل میں لیا جائے وہ پہلے کسی کی ملکیت میں نہ ہوں، چنانچہ اس قسم کی جو کوئی بھی چیز  جسے ملے تو وہ اسی  کی ہے، کیونکہ اس پر کسی کی ملکیت نہیں ہے" انتہی
" الأم " از: امام شافعی (4/ 280)

چنانچہ اگر غیر مسلم ملک میں معدنیات تلاش کرنے  سے ممانعت نہیں ہے تو پھر یہ کام کرنے کی اجازت ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر اس کام کرنے کیلئے ان کی طرف سے کچھ شرائط لاگو ہیں تو ان شرائط کو پورا کرنا واجب ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا )
ترجمہ: ایفائے عہد کرو، کیونکہ عہد کے بارے میں باز پرس ہوگی[الإسراء :34]

دوم:

آپ کو ملنے والی معدنیات اور زیورات  کے بارے میں درج ذیل تفصیل ہے:

- اگر معدنیات خام صورت میں  زمین پر ملے، زمین میں کسی نے دفن نہ کی ہو تو  اس کا شمار انہی جائز چیزوں میں ہوگا  جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
( هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ )
ترجمہ: وہی [اللہ ہے] جس نے زمین کا سب کچھ تمہارے لیے پیدا کیا ہے۔[سورة البقرة :29]

نیز آپ اس کی زکاۃ بھی ادا کریں گے، اور حاصل شدہ معدنیات اگر سونا یا چاندی ہے تو اس کی زکاۃ اسی کا چالیسواں حصہ ہوگی ، اور اگر کوئی اور چیز ہے تو اس کی قیمت میں سے چالیسواں حصہ زکاۃ ادا کرنی ہوگی۔

زکاۃ ادا کرنے کا وقت وہی ہوگا جب آپ یہ معدنیات حاصل کریں، سال گزرنے کا انتظار مت کریں۔
چنانچہ اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ  ایسی چیزیں جن کی زکاۃ ادا کرنے کیلئے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے انہیں شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"پانچویں چیز: معدنیات؛ کیونکہ معدنیات کی مشابہت پھلوں کیساتھ زیادہ ہے [اور پھلوں کی زکاۃ یعنی: عشر فوری ادا کیا جاتا ہے سال گزرنے کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ مترجم]چنانچہ اگر کوئی انسان  کسی طرح کی  معدنیات سونا یا چاندی  اتنی مقدار میں نکال لے جس سے نصاب مکمل ہوتا ہو تو فوری زکاۃ ادا کرنی چاہیے، سال گزرنے کا انتظار مت کرے" انتہی
" الشرح الممتع " (6 / 20)

- اور اگر ملنے والی چیز زمین میں کسی کی طرف سے چھپائی گئی ہو، اور ایسے شواہد موجود ہوں کہ یہ "رکاز  " ہے یعنی دور جاہلیت کے لوگوں کی طرف سے یہ چھپایا گیا ہے تو اس میں سے پانچواں حصہ زکاۃ کے مستحقین کو دینا لازمی ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (رکاز میں پانچواں حصہ ہے) بخاری: (1499) مسلم: (1710)

پہلے ہماری سائٹ پر غیر مسلم علاقے میں پائے جانے والے "رکاز" سے متعلق اہل علم کی مختلف آراء بیان کی جا چکی ہیں اور ان میں راجح یہی ہے کہ اس میں پانچواں حصہ زکاۃ ہے، تفصیل دیکھیں: سوال نمبر: (101584) کے جواب میں۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر غیر مسلم علاقے میں "رکاز" ایسی جگہ ملے جہاں سے کسی کے تعاون کے بغیر خود ہی اسے نکال سکے تو اس کا حکم وہی ہے جو مسلم علاقے میں ملنے والے رکاز کا ہے، یعنی اس میں سے پانچواں حصہ زکاۃ ہوگی اور باقی چار حصے نکالنے والے کے ہونگے۔۔۔ شافعی کہتے ہیں: اگر رکاز کسی بیابان جگہ میں ملے تو اس کا حکم وہی ہے جو مسلم علاقے میں ملنے کا ہے" انتہی
" المغنی " (9 /277)

ابن دقیق العید  کہتے ہیں:
"فقہائے کرام نے  ایسی اراضی کے بارے میں گفتگو کی ہے جن میں "رکاز" پایا جاتا ہے، انہوں نے رکاز کی مختلف صورتوں کے بارے میں احکام بھی مختلف ہی بتلائے ہیں، چنانچہ ان میں سے کچھ اہل علم نے رکاز میں ہر صورت میں پانچواں حصہ زکاۃ  واجب قرار دی ہے جبکہ کچھ نے اکثر صورتوں میں خمس یعنی پانچواں حصہ زکاۃ واجب قرار دی ہے، اور انہی اہل علم کا موقف حدیث کے قریب تر ہے" انتہی
" إحكام الأحكام " (1/ 381)

رکاز کے بارے میں رکاز کی علامات، اور اس میں واجب ہونے والی زکاۃ کی مقدار سے متعلق تفصیلات سوال نمبر: (83746) میں گزر چکی ہیں۔

- اگر سونا، چاندی، یا دیگر زمین میں پائی جانی والی  چیزیں ملیں اور ایسی کوئی علامت بھی موجود نہ ہو جس سے پتا چلے کہ یہ کسی کی دفن شدہ ہے، تو اسے "لُقطہ" کہتے ہیں، چنانچہ اس بارے میں "کشف القناع" (2/228) میں ہے کہ:
"اگر ملنے والی مدفون چیز پر کوئی علامت نہ ہو، مثلاً: برتن، زیور، سونے کی ڈلیاں وغیرہ تو یہ " لُقطہ " ہے، اور اسے اپنی ملکیت میں اس وقت تک نہیں لے سکتا جب تک اس کے بارے میں اعلان نہ کر دے" انتہی

نیز غیر مسلم علاقے سے ملنے والے " لُقطہ " کا وہی حکم ہے جو مسلم علاقوں میں ملنے کا ہے، چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس شخص کو دشمن کے علاقے میں " لُقطہ " ملے ۔۔۔ اگر ان کے علاقے میں ان سے امان لینے کے بعد داخل ہوا [جیسے آجکل لوگ پاسپورٹ کے ذریعے داخل ہوتے ہیں۔ مترجم] تو پھر اسے ملنے والی چیز کا اعلان کرنا چاہیے؛ کیونکہ  اس صورت میں دشمنوں کا مال اس کیلئے حرام ہے، اور اگر اعلان کرنے کے بعد بھی کوئی مالک سامنے نہ آئے تو یہ چیز اس کی ملکیت میں ایسے ہی آ جائے گی جیسے مسلم علاقے میں آجاتی ہے" انتہی
" المغنی " (6 /92)

اور آپ پر زکاۃ اسی وقت واجب ہوگی جب آپ ان چیزوں کو اعلان کرنے کے بعد اپنی ملکیت میں شامل کر لیں، چنانچہ ملنے والے معدنیات اور دیگر تمام چیزوں کی مالیت لگا کر سال گزرنے کے بعد اس میں سے زکاۃ ادا کر دیں۔

" لُقطہ " کے بارے میں تفصیلی احکامات پڑھنے کیلئے سوال نمبر: (5049) اور (4046) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب