سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

كيا تيمم كرنے والا شخص وضوء كرنے والوں كى امامت كروا سكتا ہے ؟

21564

تاریخ اشاعت : 09-11-2008

مشاہدات : 10388

سوال

كيا تيمم والا شخص وضوء كرنے والوں كى امامت كروا سكتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

تيمم كرنے والے شخص كے ليے وضوء كرنے والوں، اور وضوء كرنے والے كى تيمم كرنے والوں كى امامت كرانى جائز ہے، اور مسح كرنے والا پاؤں دھونے والوں،اور پاؤں دھونے والا مسح كرنے والوں كى امامت كروا سكتا ہے؛ كيونكہ جتنے بھى ہم نے بيان كيے ہيں سب نے اپنے اوپر فرض كردہ كى ادائيگى كى ہے اور ان ميں كوئى ايك بھى دوسرے سے زيادہ طاہرنہيں، اور نہ ہى ايك كى دوسرے سے نماز زيادہ مكمل ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز كا وقت ہونے پر يہ تو حكم ديا ہے كہ ان كى امامت قرآن زيادہ پڑھا ہوا شخص كروائے، اس كے علاوہ اور كچھ مخصوص نہيں كيا.

اور اگر يہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ذكر كيا ہے اس كے علاوہ كچھ اور واجب ہوتا تو وہ بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ضرور بيان فرماتے، حاشا وكلا اس ميں كبھى سستى نہ كرتے.

امام ابو حنيفہ، ابو يوسف، زفر، سفيا، شافعى، داود، احمد، اسحاق، ابو ثور رحمہم اللہ كا يہى قول ہے، اور ابن عباس، عمار بن ياسر، اور صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم كى ايك جماعت سے يہى مروى ہے.

اور سعيد بن مسيب، حسن، عطاء، زھرى، حماد بن ابى سليمان رحمہم اللہ كا بھى قول يہى ہے.

على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے اس كى ممانعت مروى ہے، ان كا كہنا ہے:

" تيمم كرنے والا شخص وضوء كرنے والوں، اور مقيد شخص آزاد لوگوں كى امامت نہ كروائے "

اور ربيعہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جنابت كى بنا پر تيمم كرنے والا شخص اپنے جيسے كى امامت كروا سكتا ہے، اس كے علاوہ كسى كى نہ كروائے. يحيى بن سعيد انصارى كا بھى ايسے ہى كہتے ہيں.

اور محمد بن حسن اور حسن حي كہتے ہيں: وہ ان كى امامت نہ كروائے.

اور امام مالك، عبيد اللہ بن حسن نے ان كى امام كرانا مكروہ كہا ہے، ليكن اگر وہ كروائے تو ہو جائيگى.

اوزاعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر ان كا امير ہو تو پھر كروا سكتا ہے.

على ـ يعنى ابن حزم ـ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس كى ممانعت يا كراہت كى قرآن و سنت ميں كوئى دليل نہيں ملتى اور نہ ہى اجماع اور قياس ميں اس كى دليل ہے، اور اسى طرح تقسيم كرنے والوں كى تقسيم كى دليل.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

ماخذ: ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 1 / 367 - 368 )