اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا ايسى كمپنى ميں ملازمت كر لے جس كا مينجر كافر ہے ؟

21688

تاریخ اشاعت : 25-04-2010

مشاہدات : 8051

سوال

ميں الحمد للہ ايك مسلمان نوجوان شخص ہوں، اور عرب ممالك ميں سے ايك ملك ميں ملازمت كرتا ہوں، ميرا مينجر نماز ادا نہيں كرتا، بلكہ وہ بے حيائى اور فحش چينل كا مشاہدہ كرتا اور گانے و موسيقى سنتا ہے، ميں نے ان معاملات كے ايك بار اس سے بات چيت كى تو وہ كہنے لگا:
مجھے علم ہے كہ گانے اور موسيقى حرام ہے، اور بے حيائى اور فحش چينل بھى حرام ہيں، ليكن نماز كے متعلق اس نے مجھے بتايا كہ يہ صرف سستى اور كاہلى اور شيطان كى طرف سے ہے.
وہ اس سے چھٹكار حاصل كرنے كى كوشش ميں ہے، ميں نے اسے تعاون كى پيشكش كى ليكن اس نے انكار كر ديا اور ابھى تك نہ تو وہ نماز ادا كرتا ہے، اور گانے و موسيقى بھى سنتا اور فحش اور بے حيائى كے چينلوں كا مشاہدہ بھى كرتا ہے، تو كيا اس كے ساتھ ميرا كام كرنا حرام ہے؟ يا كہ ميرا اس كے ساتھ كام كرنے سے حاصل ہونے والا رزق حرام ہے، تفصيل سے آگاہ كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كى كمائى اور آپ كے كام كا بے نماز اور حرام سننے اور ديكھنے والے مينجر كے ساتھ كوئى تعلق نہيں ہے.

آپ اسے نصيحت كرتے رہيں، اور اس كے بہت زيادہ قريب نہ ہوں كہ كہيں آپ بھى اس سے متاثر نہ ہو جائيں.

اسى طرح آپ اپنے مينجر پر شرعى احكام لاگو كريں، اگر تو وہ تارك نماز ہے تو اس طرح كے لوگوں كو سلام كرنے ميں ابتدا نہيں كرنى چاہيے، اور اس كے ساتھ قلبى اور دلى محبت بھى نہيں ركھنى چاہيے، پہلے بھى كئى ايك بار تارك نماز كا حكم بيان كيا جا چكا ہے كہ: يہ كفر اور ارتداد ہے.

شيخ محمد بن صالح بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ہم كفار كے ساتھ كام كرنے والے بھائى كو ايسا كام تلاش كرنے كى نصيحت كرتے ہيں جس ميں كوئى اللہ اور اس كے رسول كا دشمن نہ ہو، اور دين اسلام كے علاوہ اور كسى دين كو ماننے والا نہ ہو، اگر تو يہ آسانى سے مل جائے تو پھر چاہيے تو يہى، اور اگر ميسر نہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ وہ اپنے كام ميں ہے اور وہ اپنے كام ميں، ليكن ايك شرط ہے كہ:

اس كے دل ميں ان كى محبت اور مودت اور دوستى نہ ہو، اور انہيں سلام كرنے اور ان كے سلام كا جواب دينے ميں اسلامى احكام پر عمل پيرا رہے اور اسى طرح ان كے جنازہ ميں بھى نہ جائے، اور نہ ہى وہاں حاضر ہو، اور نہ ہى ان كےتہواروں ميں حاضر ہو، اور نہ ہى انہيں اس كى مباركباد دے.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 3 / 39 - 40 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب