الحمد للہ.
آپ كى كمائى اور آپ كے كام كا بے نماز اور حرام سننے اور ديكھنے والے مينجر كے ساتھ كوئى تعلق نہيں ہے.
آپ اسے نصيحت كرتے رہيں، اور اس كے بہت زيادہ قريب نہ ہوں كہ كہيں آپ بھى اس سے متاثر نہ ہو جائيں.
اسى طرح آپ اپنے مينجر پر شرعى احكام لاگو كريں، اگر تو وہ تارك نماز ہے تو اس طرح كے لوگوں كو سلام كرنے ميں ابتدا نہيں كرنى چاہيے، اور اس كے ساتھ قلبى اور دلى محبت بھى نہيں ركھنى چاہيے، پہلے بھى كئى ايك بار تارك نماز كا حكم بيان كيا جا چكا ہے كہ: يہ كفر اور ارتداد ہے.
شيخ محمد بن صالح بن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ہم كفار كے ساتھ كام كرنے والے بھائى كو ايسا كام تلاش كرنے كى نصيحت كرتے ہيں جس ميں كوئى اللہ اور اس كے رسول كا دشمن نہ ہو، اور دين اسلام كے علاوہ اور كسى دين كو ماننے والا نہ ہو، اگر تو يہ آسانى سے مل جائے تو پھر چاہيے تو يہى، اور اگر ميسر نہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ وہ اپنے كام ميں ہے اور وہ اپنے كام ميں، ليكن ايك شرط ہے كہ:
اس كے دل ميں ان كى محبت اور مودت اور دوستى نہ ہو، اور انہيں سلام كرنے اور ان كے سلام كا جواب دينے ميں اسلامى احكام پر عمل پيرا رہے اور اسى طرح ان كے جنازہ ميں بھى نہ جائے، اور نہ ہى وہاں حاضر ہو، اور نہ ہى ان كےتہواروں ميں حاضر ہو، اور نہ ہى انہيں اس كى مباركباد دے.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 3 / 39 - 40 ).
واللہ اعلم .