جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بسم اللہ کی تفسیر اورقرآت بسم اللہ سے شروع کرنا

سوال

بسم اللہ کا معنی کیا ہے ؟
اورکیا سورۃ کے نصف میں بسم اللہ پڑھی جاۓ ،اور کیوں پڑھی جاۓ گی؟ اقراء باسم ربک ، کا معنی کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

عمل شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنے والے کا معنی یہ ہوگا :

میں اس کام کو اللہ تعالی کے نام کے ساتھ یا اس کے نام سے مدد لیتے ہوۓ اللہ تعالی سے برکت کا طالب ہوکر شروع کرتا ہوں ، وہ اللہ تعالی ہی محبوب الہ جس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہی معبود ہے جس کی طرف محبت اور تعظیم اوراطاعت کرتے ہوۓ دل متوجہ ہوتے ہیں ، وہ الرحمان جو کہ وسیع رحمت سے متصف ہے ، الرحیم جو کہ اپنی رحمت اپنی مخلوق تک پہنچاتا ہے ۔

اور یہ معنی بھی کیا گیا ہے : میں اس کام کو اللہ تعالی کے نام اوراس کے ذکر سے شروع کرتا ہوں ۔

امام ابن جریر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ :

اللہ تعالی کا ذکراوراسماء یقینا مقدس ہیں اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ تعلیم دے کرادب سکھایا کہ وہ سب افعال سے پہلے اللہ تعالی کے اسماۓ حسنی کاذکر کریں ، اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اللہ تعالی کواپنی سب مھمات سے قبل ان اسماء سے متصف کریں ۔

تو اللہ تعالی نے اس کے متعلق جوبھی ادب تعلیم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کودی اسے مخلوق کے لیے سنت اور طریقہ بنا دیا کہ وہ اس پرچلیں اور اپنے سب امورکے شروع کرتے وقت اور رسائل اورکتابیں لکھتے وقت اوراپنی ضرویات کےوقت سب سے پہلے اس طریقہ پرعمل کرتے ہوۓ اللہ تعالی کا نام لیا کریں ، حتی کہ قائل کے قول ( بسم اللہ ) کی ظاہری دلالت سے یہ ضرورت ہی نہی رہی کہ اس کی مراد معلوم کی جاۓ جو کہ محذوف ہے ۔ ا ھـ کچھ تصرف کے ساتھ یہ عبارت ختم ہو‏ئ ۔

کسی بھی عمل کے شروع کرنے سے قبل بسم اللہ کی عبارت میں محذوف ہے جس کی تقدیر یہ ہوگی :

ابتدء عملی بسم اللہ ، یعنی میں اپنے کام کی ابتدا بسم اللہ سے شروع کرتاہوں ، مثلا : بسم اللہ اقراء میں اللہ کے نام سے پڑھتا ہوں ، میں اللہ تعالی کےنام سے لکھتا ہوں ، میں اللہ تعالی کے نام سے سوار ہوتا ہوں ، وغیرہ ۔

یا تقدیریہ ہوگی : ابتدائ بسم اللہ ، میری ابتدا اللہ تعالی کے نام سے ہے ، مثلا : رکوبی بسم اللہ ، میرا سوار ہونا اللہ کے نام سے ہے ، قراتی بسم اللہ ، میراپڑھنا اللہ تعالی کے نام سے ، اور اسی طرح سب کام ۔

اور یہ بھی ممکن ہےکہ تقدیر یہ نکالی جاۓ بسم اللہ اکتب ، اللہ کے نام سے لکھتاہوں ، بسم اللہ اقراء ، اللہ تعالی کے نام سے پڑھتا ہوں ، کہ فعل کوآخرمیں مقدرلایا جاۓ تو یہ بہتر ہے تا کہ شروع میں اللہ تعالی کے نام سے تبرک حاصل ہو اور حصر کا فائدہ حاصل ہو یعنی ابدء بسم اللہ لاباسم غیرہ ، یعنی میں صرف اللہ تعالی کےنام سے شروع کرتا ہوں کسی اور کےنام سے نہیں ۔

اور لفظ جلالۃ ( اللہ ) اسم اعظم ہے جو کہ اعرف المعارف اور تعریف سے غنی ہے جس کی تعریف کی ضرورت ہی نہیں ، اور یہ اللہ جل جلالہ کا علم اور صرف اس کے لیے ہی مختص ہے کسی اور پرنہیں بولا جاسکتا ، اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ الہ یالہ ، الوھۃ والھۃ سے مشتق ہے ۔

تو الہ مالوہ یعنی معبود جو کہ الوھیت کا مالک ہے کہ معنی میں ہوگا ۔

اور ( الرحمن ) اللہ تعالی کے خصوصی ناموں میں سے ایک خاص نام ہے جس کا معنی وسیع رحمت والا ہے کیونکہ یہ فعلان کے وزن پر جو کہ کثرت اور امتلاء پردلالت کرتا ہے ۔

لفظ جلالۃ کے بعد الرحمن ہی اللہ تعالی کے خاص ناموں میں سے اخص ہے ، جس طرح کہ اللہ تعالی کی صفت الرحیم صفات میں سے اخص ہے ، اور اسی لیے غالبا یہ اسی ترتیب کے ساتھ آتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہیں :

کہہ دیجۓ کہ اللہ تعالی کوپکارو یا رحمن کو پکارو ۔۔ الایۃ ۔

اور ( الرحیم ) اللہ تعالی کے اسماء میں سے ہے جس کا معنی یہ ہے کہ : اپنی رحمت کواپنے بندوں میں سے جسے چاہے پہنچانے والا ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

الرحمن اللہ تعالی اس صفت پردال ہے جو اللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ قائم ہے ، اور الرحیم کا تعلق مرحوم کے ساتھ ہونے پردال ہے ، تو پہلا وصف اور دوسرا فعل کے لیے ہوا تو پہلا اس پردلالت کرتا ہے کہ رحمت اس کی صفت ہے ، اوردوسرااس پردلالت کرتا ہے کہ وہ اپنی رحمت کے ساتھ اپنی مخلوق پررحم کرتا ہے ۔

اوراگر آپ اس کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالی کے فرمان وکان بالمومنین رحیما (اوروہ مومنوں پر بہت رحم کرنے والا ہے ) پر غور کریں ، اللہ تعالی کے اس فرمان انہ بھم رؤ‎ف رحیم اور بیشک وہ ان کے ساتھ نرمی اور رحمت کرنے والا ہے ۔

اورکبھی بھی یہ نہیں آیا کہ ( رحمن بھم ) تو اس سے یہ پتہ چلا کہ الرحمن رحمت کی صفت سے موصوف ہے اور الرحیم اپنی رحمت سے رحمت کرنے والا ہے ۔ اھـ بدائع الفوائد ( 1 / 24 ) ۔

دوم :

قرات قرآن سے قبل بسم اللہ پڑھنے کے حکم کی چار حالتیں ہیں :

پہلی حالت :

یہ کہ سورۃ کی ابتدا میں ہو – سورۃ توبہ( البراءۃ ) کے علاوہ –

اس حالت میں اکثرعلماء نے نصا یہ کہا کہ " نماز اور نماز کے علاوہ ہرسورۃ کی ابتدامیں بسم اللہ پڑھنی مستحب ہے ، اوراس کی محافظت کرنی ضروری ہے حتی کہ بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ سورۃ البراءۃ ( توبۃ ) کے علاوہ ہرسورۃ کے آغازمیں اگر بسم اللہ نہ پڑھی جاۓ تو قرآن مجید کا مکمل ختم بھی ناقص ہی رہے گا ، جب امام احمد رحمہ اللہ تعالی سے ہرسورۃ کے آغازمیں بسم اللہ پڑھنے کا مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ : اسے نہیں چھوڑنا چاہیے ۔

دوسری حالت :

یہ کہ بسم اللہ سورۃ میں پڑھی جاۓ – اور سوال بھی یہی ہے –

جمورعلماء اورقراء کا قول ہے کہ جب سورۃ میں کہیں سے بھی تلاوت کرنی ہوتو بسم اللہ سے ابتدا کرنے میں کو‏ئ مانع نہیں ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے بسم اللہ کے بارہ میں جب یہ کہا کہ سورۃ کی ابتدامیں نہیں چھوڑنی چاہیے ، توان سے یہ کہا گيا کہ اگر وہ سورۃ میں سے کسی حصہ کوپڑھے تو کیا وہ بسم اللہ پڑھےگا ؟ تو ان کا جواب تھا اس میں کوئ حرج نہیں ۔

اور عبادی نے امام شافعی رحمہ اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ : سورۃ کے درمیان میں بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے ۔

قراء کرام کا کہنا ہے کہ :

اگراس آیت میں جو بسم اللہ کےبعدپڑھی جاۓ ایسی ضمیرہوجو اللہ تعالی کی طرف لوٹ رہی ہوتواس حالت میں بسم اللہ پڑھنی ضروری ہے ، مثلا اللہ تعالی کا فرمان ہے :

الیہ یرد علم الساعۃ قیامت کا علم اللہ ہی طرف لوٹایاجاتا ہے ۔

اور فرمان باری تعالی ہے :

وھوالذی انشاء جنات اور وہ ( اللہ تعالی ) ہی جس نے باغات کوپیدا فرمایا ہے ۔

اس لیے کہ اعوذ باللہ پڑھنے کے بعد یہ آیات پڑھنے میں شیطان کی طرف ضمیر لوٹنے کا ابھام اور کراھت پائ جاتی ہے ۔

تیسری حالت :

سورۃ البراءۃ ( توبۃ ) کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنا ۔

اس میں علماء اور قراء ابھی تک اختلاف کا شکار ہیں کہ یہ مکروہ ہے ۔

صالح نے اپنے والد احمد رحمہما اللہ سے اپنے مسا‏ئل میں یہ قول نقل کیا ہے کہ میں نے اس سے سورۃ الانفال اور سورۃ التوبۃ کے بارہ میں پوچھا کہ کیا کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ ان دونوں سورتوں کوبسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ جداکرے ؟ تومیرے والد نے کہا : قرآن میں وہی رکھے جس پر صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اجماع ہے نہ تواس میں کوئ کم اورنہ ہی زیادتی کرے ۔

چوتھی حالت :

سورۃ البراۃ ( توبۃ ) کے درمیان میں بسم اللہ پڑھنا ۔

اس میں قراء کرام کا اختلاف ہے جیسا کہ ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ نے فتاوی فقھیۃ ( 1 / 52 ) میں نقل کرتے ہوۓ کہا ہے :

آئمہ قراء میں سے امام سخاوی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : اس میں کوئ اختلاف نہيں کہ سورۃ توبۃ کے درمیان بسم اللہ پڑھنی سنت ہے ، اور سورۃ کے درمیان اور ابتدا میں فرق کیاہے لیکن جس کا کوئ فا‏ئدہ نہیں ، اوران قراءمیں سے جعبری نے اس کا رد کیا ہے اور یہی صحیح وجہ ہے ( یعنی مکروہ ہے یہی اقرب الی الصواب ہے ) اس لیے کہ معنی ابتدا میں بسم اللہ کا ترک کرنے کا متقاضی ہے کیونکہ یہ السیف کے ساتھ نازل ہوئ اور اس میں منافقین کے قبیح افعال سے پردہ اٹھایا گیا ہے جو کہ کسی اورسورۃ میں نہیں تو اس بنا پر اس کے درمیان میں بھی بسم اللہ پڑھنا مشروع نہیں جس طرح کہ ابتدا میں ہے ۔ جیسا کہ گذر چکا ہے ۔

دیکھیں : الاداب الشرعیۃ لابن مفلح ( 2 /325 ) اور الموسوعۃ الفقھیۃ ( 13 / 253 ) اور الفتاوی الفقھیۃ الکبری ( 1 / 52 ) ۔

اور اللہ تعالی کے فرمان : اقراء باسم ربک اپنے رب کے نام سے پڑھ ) کا معنی کیا ہے :

امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :

اللہ تعالی کے اس فرمان اقراء باسم ربک الذی خلق کی تفسیر اور تاویل یہ ہے کہ :

اللہ جل جلالہ اس قول میں یہ فرماتے ہیں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے ذکرسے پڑھ جس نے تجھے پیدا فرمایا ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد