الحمد للہ.
سوال ميں مذكور حديث صحيح ہے، جب ابو طلحہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنا بيرحاء نامى باغ صدقہ كرنا چاہا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا تھا:
" ميرى رائے يہ ہے كہ تم اسے اپنے رشتہ داروں ميں تقسيم كر دو "
اس كے صحيح ہونے ميں اتفاق ہے.
اور يہ تو نفلى صدقہ كے متعلق ہے، اور رہا مسئلہ زكاۃ كا تو اس ميں تفصيل ہے:
اگر تو وہ رشتہ دار اور قريبى نہ تو فرع اور نہ ہى اصل ( يعنى آباء اجداد اور اولاد ) ميں سے ہيں تو پھر انہيں زكاۃ دينا جائز ہے، مثلا بھائى، ماموں، چچے وغيرہ اگر يہ محتاج اور فقير ہيں تو انہيں زكاۃ دينا جائز ہے، بلكہ انہيں زكاۃ دينے ميں ايك تو صدقہ اور دوسرا صلہ رحمى دونوں كا اجروثواب ہے، اور اسى طرح دادے اور نانے كى بيوى جبكہ وہ آپ كى دادى اور نانى نہ ہو اور وہ فقير اور محتاج ہو اور اس پر خرچ كرنے والا كوئى اور نہ ہو جو اس كى ضروريات پورى نہ كرتا ہو.
اور آپ كو چاہيے كہ جو آپ نے اپنى سگى نانى كو ( زكاۃ ) دى ہے اس كى قضاء كريں يعنى وہ دوبارہ ديں اگر وہ آپ كے علاوہ دوسروں كے خرچ كے ساتھ مستغنى تھى.