جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

كيا قريب المرگ شخص كے پاس حاضر ہونا واجب ہے، اور وہاں حاضر ہونے والے كو كيا كرنا چاہيے ؟

21870

تاریخ اشاعت : 10-08-2005

مشاہدات : 4762

سوال

ميں اپنے والد كى بيمارى ميں ہر وقت ان كے ساتھ ہى ہسپتال ميں رہتى تھى، ليكن جب انہيں موت آنے لگى تو ميرے ليے كمرے ميں رہنا مشكل ہو گيا اور ميں كمرے سے نكلنے كے بعد واپس كمرہ ميں نہيں گئى، ميرے ليے انہيں مرتے ہوئے ديكھنا ناممكن تھا، كيوں؟
ہو سكتا ہے ميں خوفزدہ تھى، ليكن اب دو برس گزر جانے كے بعد مجھے گناہ اور غلطى كا احساس ہو رہا ہے، اور دن بدن يہ احساس بڑھتا جارہا ہے، ميں اپنے آپ كو كہتى ہوں كہ ميں ايك نيك اور صالحہ بيٹى نہ بن سكى، آپ سے گزارش ہے كہ مجھے يہ بتايا جائے كہ: جب والدين ميں سے كسى ايك كو موت آئے تو ايك نيك اور صالحہ مسلمان بيٹى كو كيا كرنا چاہيے، اور موت كے بعد وہ كيا كرے ؟
آپ كا شكريہ

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب والدين يا كسى رشتہ دار كو موت آئے تو اس كے پاس حاضر ہونے والے شخص كے ليے سنت طريقہ يہ ہے كہ وہ قريب الموت شخص كو لا الہ الا اللہ كى تلقين كرے، يعنى اس كے پاس لا الہ الا اللہ پڑھے تا كہ وہ بھى سن كر يہى كلمات ادا كرے، اور جب وہ شخص مر جائے اور اس كى روح نكل جائے تو اس كى آنكھيں بند كردے، كيونكہ جب روح نكلتى ہے تو آنكھيں اس كا پيچھا كرتى ہيں، اور اس وقت جزع فزع اور نوحہ اور اونچى آواز سے رونا بالكل جائز نہيں ہے.

اور اگر كوئى شخص خوف يا اس قسم كے حالات كى عادت نہ ہونے كى بنا پر وہاں ٹھرنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو اس پر كچھ وبال نہيں، ليكن انسان كو چاہيے كہ وہ اپنے آپ كو اس طرح كے حالات كے ليے تيار اور آمادہ كرے، كيونكہ اس سے دل كو زندگى حاصل ہونے ميں مدد حاصل ہوتى ہے، اور بعض اوقات تو شخص كے ليے ايسا كرنا متعين اور ضرورى ہوتا ہے، يعنى اگر اس كے علاوہ كوئى اور شخص نہ ہو جو وہاں ٹھر سكے تو پھر اس كے نہ كرنے سے وہ گنہگار ٹھرے گا.

شيخ عبد الكريم الخضير كہتے ہيں:

اگر كسى مسلمان ميت كى آنكھيں بند كرنے، اور اسے ڈھانپنے اور غسل دينے اور اس كى تجھيز و تكفين كے ليے صرف ايك مسلمان شخص كے علاوہ كوئى دوسرا نہ ہو تو اس شخص پر واجب ہے كہ وہ اپنے مسلمان بھائى كے پاس رہے تا كہ وہ اس كى تجھيز و تكفين كا انتظام كر سكے.

اور اگر اس شخص كے علاوہ اور مسلمان بھى اس كام كو كرنے والے ہوں تو پھر دوسرے مسلمان سے يہ وجوب ساقط ہو جاتا ہے.

اور جو شخص قريب الموت مسلمان شخص كے پاس حاضر ہو اس كے ليے مشروع ہے كہ وہ اس پر سورۃ يس كى تلاوت كرے تا كہ روح نكلنے ميں آسانى پيدا ہو، اور قريب المرگ شخص كو ثابت ركھتى ہے جيسا كہ اس كى قرآت بعض صحابہ كرام سے بھى ثابت ہے.

اور اس كى موت اور روح نكل جانے كے بعد ميت پر قرآن مجيد كى تلاوت كرنا مشروع نہيں، بلكہ موت كے بعد تو اس كے ليے اس كى مغفرت اور رحمت كے ليے دعاء كرنا مشروع ہے، اور دفن كرنے كے بعد قبر ميں سوال و جواب ميں اس كى ثابت قدمى كى دعاء كرنى مشروع ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد