الحمد للہ.
عید میلاد النبی صرف اور صرف جشن نہیں ہے، کہ اسکا عبادت کیساتھ کوئی تعلق نہ ہو، بلکہ جو لوگ جشن مناتے ہیں وہ اسے ایک دینی تہوار کے طور پر قربِ الہی حاصل کرنے کیلئے مناتے ہیں۔
اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
اول:
جو لوگ عیدمیلاد مناتے ہیں، یا ان محفلوں میں شرکت کرتے ہیں، یہ سب لوگ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں، اور اللہ و اسکے رسول سے محبت عظیم ترین عبادات میں سے ہے، یہی ایمان کا مضبوط ترین کڑا ہے، چنانچہ جو کوئی بھی کام اس محبت کی وجہ سے کیا جائے گا تو یقیناً وہ عبادت کے طور پر کیا جا رہا ہے۔
اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام آپ کیساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے تھے، سب سے زیادہ آپکی تعظیم کرتے تھے، صحابہ کرام کو اپنے بعد آنے والے لوگوں سے زیادہ نبوی حقوق کا علم تھا؛ چنانچہ جو کام صحابہ کرام کے ہاں دین میں شامل نہیں تھا، وہ انکے بعد بھی دین میں شامل نہیں ہوسکتا۔
اسی اصول اور قاعدہ کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسجد میں ذکر الہی کیلئے جمع ہو کر کنکریوں پر تسبیح شمار کرنے والے حضرات کے خلاف دلیل بنایا، اور کہا:
"قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم ملت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہدایت والی ملت پر ہو!؟ یا کوئی گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟!
لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! ابو عبد الرحمن [عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت] ہم تو نیکی ہی کرنا چاہتے تھے!؟
آپ نے کہا: "کتنے لوگ ہیں جو نیکی کرنا چاہتے ہیں ، لیکن نیکی کر نہیں پاتے!!" دارمی: (210)
دوم:
ہر سال کسی موسم میں جشن منانااسے تہوار کے درجےتک پہنچا دیتا ہے، اوریہ تہوار دینی شعائر ہوتے ہیں، اسی لئے اہل کتاب اپنے تہواروں کو مقدس سمجھتے ہیں، اور ان دنوں میں مخصوص تقریبات بھی کرتے ہیں۔
شیخ ناصر العقل حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"تہوار بھی شریعت کا حصہ ہیں، جس طرح قبلہ، نماز، روزہ وغیرہ ہیں ، اور تہواروں کو صرف عادات نہیں کہا جا سکتا، بلکہ تہواروں کے بارے میں کفار کیساتھ مشابہت اور انکی تقلید زیادہ خطرناک معاملہ ہے، اسی طرح اللہ کے مقرر کردہ تہواروں سے ہٹ کر خود ساختہ تہوار منانا ، "حکم بغیر ما انزل اللہ "کے زمرے میں شامل ہے، بغیر علم کے اللہ کی طرف کسی بات کی نسبت کرنے ، اس پر بہتان باندھنے، اور دینِ الہی میں بدعت شامل کرنے کے مترادف ہے" انتہی
" مقدمہ اقتضاء الصراط المستقیم " (ص58)
سوم:
ابو داود: (1134) میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو [اہل مدینہ] دو دنوں میں تفریح ومیلہ کیا کرتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (یہ دو دن کیا ہیں؟) تو انہوں نے کہا: "ہم دور جاہلیت سے ان دنوں میں کھیلتے آرہے ہیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں سے اچھے دن بدلے میں دیے ہیں: عید الاضحی، اور عید الفطر)" اسے البانی نے "صحیح سنن ابو داود" میں صحیح کہا ہے۔
چنانچہ اگر کسی تہوار کو جشن منانا عادات میں شامل ہوتا، اور عبادت کیساتھ اس کا کوئی تعلق نہ ہوتا ، اور نہ ہی اس میں کفار سے مشابہت کی گنجائش ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کھیل کود میں لگا رہنے دیتے، کیونکہ کھیل کود، اور ہنسی مذاق میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔
اس لئے اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی تہوار کے دن میں کھیل کود سے منع فرمایا، حالانکہ اس میں کسی قسم کی عبادت بھی نہیں تھی؛ تو جو شخص کوئی عمل عبادت اور قرب الہی کیلئے ، یا دلی میلان کیساتھ ، یا اس عمل پر ثواب ملنے کا دعوی کرے ؛ اسے تو بالاولی منع ہونا چاہیے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے ہمارے [دینی] معاملے میں ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں ہے، تو وہ مردود ہے)بخاری: (2697) مسلم: (1718)
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (10843) اور : (128530) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.