سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

شادى كا ارادہ ركھنے والے كو زكاۃ دينا

21975

تاریخ اشاعت : 05-04-2014

مشاہدات : 4955

سوال

ميرا ايك دوست شادى كرنا چاہتا ہے اور اس كے پاس شادى کیلئے خرچہ نہيں ہے، كيا میں زکاۃ کے مال سے اسکی مدد کرسکتا ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں شادى كرنے والے كے پاس اگر خرچہ نہيں تو اسے شادى كى ضروريات پورى كرنے كے ليے زكاۃ كى رقم دينى جائز ہے، اور يہ زكاۃ كے آٹھ مصارف ميں سے خارج نہيں ہے جن كا اللہ تعالى نے مندرجہ ذيل آيت ميں بيان كيا ہے:

( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

ترجمہ: زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين، اور اس پر كام كرنے والے، اور تاليف قلب ميں، اور گردنیں آزاد كرانے ميں، اور قرض داروں كے ليے، اور اللہ كے راستے ميں، اور مسافروں كے ليے ہے، يہ اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے ۔ التوبۃ /60

كيونكہ جس كے پاس ضروريات پورى كرنے كے ليے كچھ نہ ہو وہ فقير يا مسكين ہے، لہذا اسے زكاۃ دينى جائز ہے۔

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر ہم كوئى ايسا شخص پائيں جو كھانے پينے اور رہائش كے ليے كمائى كر سكتا ہے، ليكن وہ شادی کرنا چاہتا ہے جبکہ اس كے پاس شادى كرنے كے ليے رقم نہيں تو كيا ہم اس كى شادى زكاۃ كے مال كے ساتھ كر سكتے ہيں ؟

جواب:

جى ہاں اس كى شادى زكاۃ كے مال سے كرنى جائز ہے، اور مكمل مہر ادا كيا جائے گا، اگر يہ كہا جائے كہ زكاۃ كے ساتھ فقير كى شادى كرنے كے جواز كى كيا وجہ ہے، ہوسکتا ہے کہ جو اسے ديا جائے وہ بہت زیادہ ہو؟

ہم يہ كہيں گے كہ: كيونكہ انسان كو جس طرح كھانے پينے كى حاجت ہوتى ہے بعض اوقات شادى كى بہت زيادہ ضرورت ہوتى ہے ، اور اسى ليے اہل علم كا كہنا ہے كہ: جس شخص پر كسى كا نفقہ لازم ہے اور اس كے پاس اتنى وسعت ہے كہ وہ اپنے عيالدارى ميں موجود شخص كى شادى كر سكے تو اس پر اس كى شادى كرنا واجب ہے، لہذا والد پر واجب ہے كہ اگر اس كا بيٹا شادى كا محتاج ہے اور اس كے پاس شادى كرنے كے ليے رقم نہيں تو والد اس كى شادى كرے، ليكن ميں نے سنا ہے كہ بعض والد حضرات جو اپنى جوانى كى حالت بھول چكے ہيں، جب ان سے ان كا بيٹا شادى كرنے كا كہتا ہے تو وہ بيٹے كو جواب ديتے ہيں:

"جاؤ اپنے خون پسینے کی كمائى سے شادى كرو"والد اگر اس كى استطاعت ركھتا ہے تو اسے يہ كہنا جائز نہيں یہ اسکے لئے حرام ہے، اگر طاقت اور استطاعت ركھنے كے باوجود والد بيٹے كى شادى نہيں كرتا تو روز قيامت بيٹا اس سے جھگڑے گا" انتہی

ماخوذ از: "فتاوى اركان الاسلام "صفحہ ( 440 - 441 )

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے شادى كى استطاعت نہ ركھنے والے نوجوان كو شادى كے ليےزكاۃ دينے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

اگر وہ نوجوان شادى كے اخراجات ادا نہيں كر سكتا تو بطور مدد اسے زكاۃ دينى جائز ہے۔

فتاوى الشيخ ابن باز ( 14 / 275 )

اور دائمی فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

كيا عفت و عصمت اور اپنے آپ كو فحاشی سے بچانے كے ليے شادى كرنے والے نوجوان كو زكاۃ دينى جائز ہے؟

تو كميٹى كا جواب تھا:

اگر وہ نوجوان فضول خرچی اور اسراف سے پاک عرف کے مطابق شادى كے اخراجات پورے كرنے سے عاجز ہے تو اسے زكاۃ دينى جائز ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 17 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب