الحمد للہ.
اول:
“محقق اہل علم علمائے کرام نے قیامت کے دن کے احوال کی جو تربیت ثابت قرار دی ہے وہ درج ذیل ہے:
1-جس وقت لوگوں کو زندہ کیا جائے گا اور لوگ اپنی قبروں سے نکل کر ارضِ محشر کی جانب جائیں گے اور وہاں پر لمبا قیام کریں گے، وہاں انہیں سنگین حالات اور پیاس کا سامنا کرنا پڑے گا، اور طویل ترین لمبے قیام ، یقینی محاسبے، اور ان کے بارے میں اللہ تعالی کے فیصلوں کی وجہ سے لوگوں کو بہت زیادہ خوف لاحق ہو گا ۔
2-جب لوگ طویل ترین قیام سے تنگ آ جائیں گے تو اللہ تعالی اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو حوضِ کوثر عطا فرمائے گا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حوض قیامت کے میدان میں اس وقت ہو گا جب لوگ اللہ تعالی کے سامنے 50 ہزار سال کے برابر دن میں کھڑے ہوں گے ۔
تو جس شخص کو موت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر چلتے ہوئے آئی، اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت میں کسی قسم کی تبدیلی ، تغیر یا بدعت ایجاد نہ کی ہو گی وہی شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حوضِ کوثر سے پانی پینے کے لیے آئے گا اور اس حوض سے پانی پیے گا، ایسے شخص کے لیے یہ سب سے پہلا پروانہِ امان ہو گا کہ اسے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حوض سے پانی پینے دیا گیا۔ پھر اس کے بعد ہر نبی کو ان کا حوض دیا جائے گا اور وہ اپنی امت کے نیک افراد کو پانی پلائیں گے۔
3-اس کے بعد لوگ پھر دوبارہ لمبے وقت تک کے لیے کھڑے رہیں گے، اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو شفاعتِ عظمی کا موقع دیا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس شفاعت میں اللہ تعالی کے سامنے عرضی پیش کریں گے کہ لوگوں کا حساب اللہ تعالی کی طرف سے جلد شروع کیا جائے، مشہور طویل حدیث میں ہے کہ : لوگ سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے سامنے آئیں گے، پھر نوح علیہ السلام اور پھر ابراہیم علیہ السلام ۔۔۔ الخ آخر میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر کہیں گے: اے محمد -صلی اللہ علیہ و سلم – اور انہیں اپنی ابتر حالت بیان کریں گے، اور عرضی پیش کریں گے کہ اللہ تعالی سے دعا کریں کہ اللہ تعالی لوگوں کو میدان محشر کی سختی سے بچا لے اور حساب شروع فرمائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس حوالے سے فرماتے ہیں کہ: لوگوں کی شفاعت کی خواہش کے بعد میں کہوں گا: میں تمہاری شفاعت کرتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم عرش کے پاس آئیں گے اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جائیں گے، تو اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسی حمد و توصیف سکھائے گا جو آپ کو پہلے نہیں سکھائی گئی ہوں گی، پھر کہا جائے گا: اے محمد، اپنا سر اٹھائیے، مانگیے دیا جائے گا، شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم شفاعت عظمی کریں گے کہ لوگوں کا حساب شروع کیا جائے۔
4-اس کے بعد لوگوں کے اعمال پیش کیے جائیں گے۔
5- پیشی کے بعد حساب شروع ہو گا۔
6- ابتدائی حساب کے بعد نامہ اعمال سب کو دئیے جائیں گے۔ ابتدائی حساب بھی اعمال کی پیشی کا ہی حصہ ہو گا؛ کیونکہ اس میں مجرموں کی طرف سے عدم اطمینان اور عذر خواہی وغیرہ بھی ہو گی۔ اس کے بعد نامہ اعمال سب کو دئیے جائیں گے، چنانچہ اہل یمین کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں اور اہل شمال کو نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے، اور پھر سب اپنے نامہ اعمال پڑھیں گے۔
7- نامہ اعمال پڑھنے کے بعد: پھر کسی بھی قسم کا عذر ختم کرنے کے لیے حساب ہو گا، اور سب پر اتمام حجت ہو جائے گا۔
8- اس کے بعد میزان ہو گا، اور جن اشیا کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ان کا وزن کیا جائے گا۔
9- پھر میزان کے بعد لوگوں کو مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے گا، اس کے لیے انبیائے کرام کو جھنڈے دئیے جائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جھنڈا بھی ہو گا، اسی طرح ابراہیم اور موسی علیہم السلام وغیرہ دیگر انبیائے کرام کے بھی جھنڈے ہوں گے، جھنڈوں کو دیکھ کر لوگ الگ الگ ٹولیوں میں منقسم ہو جائیں گے۔
اسی طرح ظالم اور کافر لوگوں کو بھی ان کی درجہ بندی کے حساب سے ٹولیاں بنا یا جائے گا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ * مِنْ دُونِ اللَّهِ ترجمہ: ظالموں اور ان جیسوں کو اکٹھا کرو، اور ان کو بھی جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر بندگی کیا کرتے تھے۔ [الصافات: 22 – 23] یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ظالم سب یکجا ہوں گے، اسی طرح علم رکھنے والے مشرکین عالم مشرکوں کے ساتھ ہوں گے، ظلم کرنے والے مشرکین ظالم مشرکوں کے ہمراہ ہو ں گے۔ آخرت کے منکرین آخرت کا انکار کرنے والوں کے ساتھ ہوں گے، اس طرح لوگوں کو ٹولیاں بنایا جائے گا۔
10- اس تقسیم کے بعد پھر اللہ تعالی ظالموں کو جہنم کی جانب چلائے گا۔ -اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ فرمائے- تو لوگوں کو نور دیا جائے گا اس کی روشنی میں وہ چلنے لگیں گے، اسی اثنا میں اس امت کے ساتھ منافقین بھی چلنا شروع کر دیں گے، پھر جب منافقین اہل ایمان کی روشنی میں چل رہے ہوں گے تو ان کے سامنے سورت الحدید میں مذکور دیوار بنا دی جائے گی: فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ * يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ قَالُوا بَلَى ترجمہ: پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی، جس میں ایک دروازہ ہو گا اس دروازے کے اندر رحمت ہو گی اور اس کے باہر عذاب ہو گا ۔ [13] وہ مومنوں کو پکاریں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ مومن جواب دیں گے : کیوں نہیں۔ [الحدید: 13 – 14] اس آیت کی رو سے اللہ تعالی اہل ایمان کو نور عطا فرمائے گا جس کی بدولت انہیں راستہ نظر آئے گا، جبکہ منافقوں کو نور نہیں دیا جائے گا اس لیے کافروں کے ساتھ وہ بھی جہنم میں جا گریں گے، وہ آگے چلیں گے تو ان کے سامنے جہنم ہو گی۔ اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے۔
11- پھر اس کے بعد نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سب سے پہلے پل صراط پر آئیں گے اور اللہ تعالی سے اپنے لیے اور اپنی امت کے لیے سلامتی طلب کریں گے اور فرمائیں گے: اَللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ ، اَللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ یعنی: یا اللہ! تو سلامتی عطا فرما، تو سلامتی عطا فرما ۔ یا اللہ! تو سلامتی عطا فرما، تو سلامتی عطا فرما ۔ اس دعا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم پل صراط سے گزر جائیں گے، آپ کی امت بھی گزر جائے گی، اور وہاں سے گزرنے کی رفتار ہر ایک کی اس کے اعمال کے مطابق ہو گی، اسی طرح ان کے پاس روشنی ان کے اعمال کے مطابق ہو گی۔ تو موحدین میں سے جسے اللہ تعالی نے معاف کر دیا ہو گا وہ اس پل سے گزر جائے گا، اور جس کے بارے میں اللہ تعالی نے عذاب کا فیصلہ کیا ہو گا وہ جہنم میں موحدین کے طبقہ میں جا گرے گا۔ پھر جب یہ جہنم سے باہر نکلیں گے تو جنت کے کھلے میدان میں اکٹھے ہوں گے، یہ کھلے میدان اللہ تعالی نے اہل ایمان کے لیے تیار کیے ہوں گے جہاں اہل ایمان کو ایک دوسرے سے بدلہ لے کر دیا جائے گا، اور انہیں جنت میں داخل کرنے کے لیے ان کے دلوں سے کینہ نکال دیا جائے گا۔
12-نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد سب سے پہلے جنت میں غریب مہاجرین و انصار داخل ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے دیگر غریب لوگ داخل ہوں گے، جبکہ امیر لوگوں کو دیگر لوگوں کے ساتھ حساب کے لیے روک لیا جائے گا، اور ان سے ان کی دولت کا بھی حساب ہو گا۔” معمولی تصرف کے ساتھ ختم شد
ماخوذ از: شرح طحاویہ: صفحہ نمبر: 542، از شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ
دوم:
ہمیں کسی صحیح حدیث کا علم نہیں ہے کہ جس میں موت کے وقت انسان کے پاس دو شیطان اس کے والدین کی شکل میں آنے کا تذکرہ ہو، اور وہ اسے یہودی یا عیسائی بننے کا حکم دیں۔
البتہ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے “التذكرة” (ص 185) میں ذکر کیا ہے کہ:
“روایت کیا جاتا ہے کہ: (جب انسان کی موت کا وقت قریب ہوتا ہے تو اس کے پاس دو شیطان آ کر بیٹھ جاتے ہیں: ایک دائیں جانب تو دوسرا بائیں جانب۔ دائیں جانب والا اس کے باپ کی شکل میں ہوتا ہے: اسے کہتا ہے کہ: میرے بیٹے! میں تیرے لیے بڑا ہی مشفق تھا اور تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ تمہیں موت آئے تو عیسائیت پر؛ کیونکہ یہ بہترین دین ہے۔ جبکہ بائیں طرف بیٹھا شیطان اس کی والدہ کی شکل میں ہو گا، وہ کہی گے: میرے بیٹے! میں نے تمہیں اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھا، اپنے سینے سے تجھے دودھ پلایا، اور اپنی ران پر تجھے بٹھایا۔ تمہیں موت آئے تو یہودیت پر آئے؛ یہی بہترین دین ہے۔) اس روایت کو ابو الحسن القابسی نے رسالہ ابن ابی زید کی شرح میں بیان کیا ہے۔ اور اسی سے ملتی جلتی روایت ابو حامد نے ” كشف علوم الآخرة ” میں بیان کی ہے۔ ” ختم شد
تو یہ روایت بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے۔ اس لیے یہ دلیل نہیں بنائی جا سکتی۔
تاہم یہ ممکن ہے کہ شیطان ابن آدم کو موت کے وقت اسی صورت میں یا کسی اور صورت میں آ کر بہکائے، جیسے کہ ابو الیسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَدْمِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّي ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْغَرَقِ ، وَالْحَرَقِ، وَالْهَرَمِ ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا یعنی: اے اللہ !میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ کسی اونچی جگہ سے گر جاؤں یا کوئی عمارت مجھ پر گر جائے یا غرق ہو جاؤں یا آگ میں جل مروں۔ اور اس بات سے بھی تیری پناہ میں آتا ہوں کہ مجھے مرتے وقت شیطان بد حواس کر دے۔ اور میں اس بات سے بھی تیری پناہ میں آتا ہوں کہ تیرے راستے میں میدان جہاد سے پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہوا مارا جاؤں ۔ اور اس بات سے بھی تیر پناہ میں آٹا ہوں کہ کسی زہریلی چیز کے ڈسنے سے مر جاؤں ۔ ) اس حدیث کو ابو داود : (1552) ، نسائی: (5531) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے “صحیح ابو داود” میں صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے موت کے وقت شیطان کی طرف سے بد حواسی سے پناہ طلب کی ہے، اس میں شیطان انسان کو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور انسان کو کسی بھی قسم کے گناہ سے توبہ نہیں کرنے دیتا، یا اپنی بہتری کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھانے دیتا، یا کسی پر ظلم ڈھایا ہو تو اس کی معافی طلب نہیں کرنے دیتا، یا اسے اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس کر دیتا ہے، یا موت سے ڈرتا ہے اور اپنی دنیاوی زندگی پر افسوس کرنے لگتا ہے، اور اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی نے اسے دنیا سے آخرت کی طرف منتقل کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے، اس طرح اس کا خاتمہ برا ہوتا ہے، اور اللہ تعالی سے جب ملتا ہے تو اللہ تعالی اس سے ناراض ہوتا ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ شیطان کو سب سے زیادہ پریشانی ابن آدم کی موت کے وقت ہوتی ہے؛ اسی لیے شیطان اپنے چیلوں سے کہتا ہے: اسے ابھی گمراہ کر سکتے ہو تو کر لو، اگر آج یہ تمہارے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر کبھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گا۔” ختم شد
“معالم السنن” (1/ 296) مزید دیکھیں: “التذكرة” (ص 185)
امام احمد کے بیٹے صالح کہتے ہیں: “میرے والد صاحب کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں ان کے پاس بیٹھ گیا، اور میرے ہاتھ میں آپ کے چہرے پر باندھنے کے لیے کپڑا تھا، آپ اچانک پسینے سے شرابور ہو گئے، اور پھر سانس اکھڑنے لگی، اور آپ اپنی آنکھیں کھولتے اور اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے کہ: نہیں ابھی تک نہیں۔ نہیں ابھی تک نہیں۔ آپ نے تین بار اشارہ کیا۔
تو میں نے پوچھا: ابا جان یہ کیا تھا ؟ آپ نے اس وقت کچھ کیا یہ کس وجہ سے تھا؟
انہوں نے کہا: بیٹا آپ کو نہیں معلوم؟
میں نے کہا: نہیں۔
انہوں نے کہا: ابلیس ملعون میرے جوتوں والی سمت کھڑے ہو کر میری انگلیوں پر کاٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا: احمد تم مجھ سے بچ گئے ہو! تو میں اسے کہتا تھا: نہیں، میں ابھی تک مرا نہیں ہوں!!” ختم شد
“طبقات الحنابلة” (1/ 175)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میں نے اپنے شیخ امام ابو العباس احمد بن عمر قرطبی سے اسکندریہ کی سرحد پر سنا تھا کہ: میں اپنے بھائی ابو جعفر احمد بن محمد بن محمد قرطبی کی وفات کے وقت قرطبہ میں تھا، اور ان کی آخری سانسیں چل رہی تھیں، انہیں لا الہ الا اللہ پڑھنے کا کہا گیا، تو وہ کہتے : نہیں۔ نہیں۔
پھر جب انہیں افاقہ ہوا تو ہم نے ان سے اس چیز کا تذکرہ کیا۔
تو انہوں نے بتلایا کہ: میرے پاس دو شیطان آئے تھے ایک دائیں جانب سے اور دوسرا بائیں جانب سے، ایک کہہ رہا تھا کہ یہودی ہو کر مرو؛ کیونکہ یہودیت سب سے اچھا دین ہے۔ اور دوسرا کہتا تھا کہ: عیسائی ہو کر مرو؛ کیونکہ عیسائیت سب سے اچھا دین ہے۔
تو میں ان دونوں کو کہہ رہا تھا: نہیں۔ نہیں۔
میرا انکار ان دونوں کی بات پر تھا، تمہاری لا الہ الا اللہ کی تلقین پر نہیں تھا۔
میں [قرطبی] کہتا ہوں کہ: اس طرح کے سلف صالحین سے واقعات بہت زیادہ ملتے ہیں، کہ احتضار کے وقت انکار کا جواب شیطان کے لیے ہوتا ہے، کلمے کی تلقین کرنے والے کے لیے نہیں!” ختم شد
“التذكرة” (ص 187)
واللہ اعلم