اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بغیر کسی عذر کے شادی لیٹ کرنے کا حکم

22107

تاریخ اشاعت : 24-03-2004

مشاہدات : 10580

سوال

آپ کی ویب سائٹ کے بارہ میں مجھے ایک دوست کے ذریعہ سے علم ہوا جب اسے دیکھا تو میرے لیے بہت زيادہ مفید ثابت ہوئي اورمیری بہت سی مشکلات حل ہوگئيں آپ کی کوششوں پر آپ کا شکر گزارہوں ۔
میرا یہ سوال شادی کے متعلق ہے :
میرے والدین نے منگنی تو کردی ہے لیکن اب وہ شادی کرنے میں تاخیرکررہے ہيں حالانکہ ہر چيزتیار ہے اوردوسرے خاندان والے بھی تیار ہیں لیکن میرا خاندان اس میں دیر کررہا ہے ۔
ہر چيز تیار ہونے کے باوجود شادی میں تاخیرکرنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ ہماری ویب سائٹ کے بارہ میں آپ کے خیالات اچھے ہیں ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ ہمیں اور آپ کو علم نافع اوراعمال صالحہ عطا فرمائے ۔

جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے کہ آپ کے والدین شادی پر موافق ہیں اور لڑکی والے بھی تیار ہیں اور شادی کے لیے سب کچھ تیار کیا جاچکا ہے تو اب شادی میں تاخیر کرنے کی کوئي وجہ نہيں ۔

بلکہ ضروری ہے کہ اس میں جلدی کی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو بھی شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کرے ، اورجس میں استطاعت نہيں وہ روزے رکھے کیونکہ وہ اس کے لیے ڈھال ہيں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4778 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400 ) ۔

لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے والدین کے پاس کوئي ایسے اسباب ہوں جو انہيں اس شادی میں تاخیر کرنے پر مجبور کررہے ہوں ، اورہوسکتا ہے کہ وہ ان اسباب کے بارہ میں آپ کوبتانا مناسب نہ سمجھتے ہوں ، تو اس لیے ضروری ہے کہ آپ صبر وتحمل سے کام لیں اورثواب کی نیت کریں ۔

اوروالدین کو اس کار خیر میں جلدی کرنے کی فضیلت کے بارہ میں بتائيں ، کہ اس میں آنکھیں نیچی ہوجاتی ہيں اورشرمگاہ کی بھی حفاظت ہوتی ہے ، چاہے وہ عقد نکاح کردیں اوررخصتی میں تاخیر کرلیں کیونکہ عقدنکاح کرنا اور رخصتی میں تاخیر منگنی سے بہتر ہے ۔

آپ کویہ بھی علم ہونا چاہیے کہ مرد اپنی منگیتر کے لیے اجنبی ہے ، اس کے صرف منگنی کے وقت اسے دیکھنا جائز ہے بعد میں وہ اسے نہیں دیکھ سکتا ، اوراگر اس کا عقد نکاح ہوچکا ہے تو وہ اس کی بیوی بن چکی ہے اب اس کے لیے وہ لڑکی حلال ہے جس طرح کہ خاوند کے لیے حلال ہوتی ہے ۔

لیکن افضل اوربہتر یہ ہے کہ وہ رخصتی سے قبل اس سے ہم بستری نہ کرے تا کہ فساد اورفتنہ سے بچا جاسکے ، اوراس میں جوعرف اورعادت بن چکی ہے اس کا خیال رکھا جاسکے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب