اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ایک آدمی کو مشت زنی کی حرمت کا علم ہو، لیکن اسے یہ نہ پتا ہو کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، تو کیا رمضان میں دن کے وقت مشت زنی کرنے سے روزہ باطل ہو جائے گا؟

221471

تاریخ اشاعت : 19-06-2015

مشاہدات : 7641

سوال

سوال: فقہائے کرام کی طرف سے روزہ توڑ دینے والی اشیاء کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: روزہ دار کو اس کام کے حرام ہونے کا علم ہونا بس ضروری ہے، یا حرام ہونے کیساتھ ساتھ روزہ توڑ دینے کا بھی علم ہونا چاہیے؟ مطلب یہ ہے کہ: مشت زنی کے متعلق ایک شخص کو اس فعل کے حرام ہونے کا علم نہیں ہے، جبکہ دوسرے شخص کو مشت زنی کے حرام ہونے کا علم ہے، لیکن اسے یہ علم نہیں ہے کہ اس سے روزہ بھی ٹوٹ جاتا ہے، اب ان دونوں میں سے مشت زنی کرنے پر کس کا روزہ ٹوٹے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

روزہ توڑنے والے اعمال کا ارتکاب کرنے سے متعلق اصول یہ ہے کہ : "اس عمل کے حرام ہونے یا  اس عمل سے روزہ ٹوٹ جانے کا علم ہو"

چنانچہ اگر کوئی شخص  مشت زنی سے متعلق لا علم ہے کہ یہ حرام ہے، اور اسے یہ نہیں پتا کہ اس سے روزہ ٹوٹ بھی جائے گا، تو رمضان میں دن کے وقت مشت زنی کرنے پر اسکا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

لیکن اگر  مشت زنی  کے متعلق اسے علم تھا کہ یہ کام حرام ہے، تاہم روزہ ٹوٹنے کے بارے میں وہ لا علم تھا، تو اس سے رمضان میں دن کے وقت مشت زنی کرنے سے اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا، اس کا یہ عذر قابل قبول نہیں ہوگا کہ مجھے علم نہیں تھا؛ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ یہ کام حرام ہے، اور روزہ کی حالت میں حرام کام  سے بچنا ضروری ہوتا ہے، چونکہ اس نے حرام کام سے احتراز نہیں کیا، تو اس سے اس کی سستی اور کاہلی  عیاں ہوتی ہے، لہذا اس طرح  اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا۔

شیخ ابو بکر دمیاطی رحمہ اللہ  "حاشية إعانة الطالبين" (2/260) میں کہتے ہیں:
"مؤلف کا قول: "کسی کام کےروزہ توڑ دینے سے جاہل ہو" اس کا مطلب یہ ہے کہ  وہ اس   کام کی حرمت سے جاہل  ہو، اور اسی طرح اس کام کے روزہ توڑ دینے کی صلاحیت  کا بھی علم نہ ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں درمیان میں "واو" عاطفہ ہے،  چنانچہ معنی یہ ہوا کہ دونوں چیزوں میں سے کسی ایک چیز کے بارے میں لا علم تھا تو اس کا عذر قبول نہیں ہوگا، ہاں اگر دونوں چیزوں کے بارے میں علم  نہیں تھا تو اس کا عذر قبول ہوگا، اور یہ بات درست ہے، لہذا اگر کسی شخص کو  دونوں  چیزوں  [حرام، اور روزہ توڑنے کی صلاحیت]کے بارے میں  علم ہو، یا دونوں میں سے ایک بات کا علم ہے لیکن دوسری بات سے لاعلم ہے، تو ایسا کام کرنے پر روزے ٹوٹ جائے گا، اور عذر بالجہل قابل قبول نہ ہوگا؛ کیونکہ اگر اسے پتا تھا کہ  یہ کام حرام ہے،  روزہ توڑ دینے کی صلاحیت کا علم نہیں تھا، یا پھر اس کے بر عکس معاملہ تھا [یعنی: حرام ہونے کا علم نہیں تھا، لیکن روزہ توڑ دینے کی صلاحیت کا علم تھا]تو اسے ایسا کام کرنے سے اجتناب  کرنا چاہیے تھا" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات ضروری ہے کہ ہم کسی  حکم کے بارے میں لاعلمی اوراس حکم  پر مرتب ہونے والے اثرات  سے لاعلمی  کے درمیان فرق کریں، کیونکہ  کسی چیز کے حکم سے  لاعلمی قابل قبول عذر ہے، کسی کام کے حکم سے لا علمی  کی وجہ سے انسان  پر کوئی گناہ مرتب نہیں ہوتا۔
لیکن کسی  کام  کے کرنے پر مرتب ہونے والے اثرات سے لاعلمی ، اس کام  سے لازم آنے والے امور سے خلاصی نہیں دلا سکتی، مثلاً: اگر کسی شخص نے رمضان میں دن کے وقت جماع کر لیا، اسے پتا تھا کہ روزے میں جماع حرام ہے، لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ اس پر سخت قسم کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا، تو ایسے شخص سے کفارہ ساقط نہیں ہوگا، اس لیے اس پر کفارہ دینا لازمی ہے، تاہم اگر کوئی شخص  یہ سمجھتا تھا کہ رمضان میں دن کے وقت جماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یعنی اس کے نزدیک یہ کام حرام نہیں تھا، تو ایسے شخص پر کچھ نہیں ہے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب " از ابن عثیمین:(11/2)  مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب