الحمد للہ.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ بالا سوال كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
اگر بيٹا مقروض ہو اور وہ ادائيگى نہ كرسكتا ہو تو امام احمد وغيرہ كے دو اقوال ميں سے ظاہر قول كے مطابق اپنے والد كى زكاۃ لے سكتا ہے.
اور اگر وہ نفقہ و خرچہ كا محتاج ہو اور اس كے والد كے پاس خرچ كے ليے كچھ نہ ہو تو اس ميں نزاع اور اختلاف ہے، اور ظاہر يہى ہے كہ اس كے ليے والد كى زكاۃ لينا جائز ہے.
ليكن اگر وہ اپنے والد كے نفقہ سے مستغنى ہو تو پھر اسے اس كى زكاۃ كى كوئى ضرورت نہيں .