الحمد للہ.
مسلمانوں کے لئے رمضان میں غیر مسلموں کی جانب سے پیش کیے گئے افطاری کے کھانے کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ایسے ہی افطاری کا انتظام کرنے کے لئے غیر مسلم سے رقم وصول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ زیادہ سے زیادہ اس کھانے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ تحفہ یا ہدیہ ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ کافروں سے تحائف قبول فرمائے تھے۔
جیسے کہ ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ غزوہ تبوک میں تھے، تو ایلہ کے بادشاہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سفید خچری تحفے میں دی اور انہیں جوڑا بھی پہنایا" بخاری: (2990)
اسی طرح عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے جنگ حنین کے متعلق بتلایا: "اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس دن اپنی سفید خچری پر تھے جو کہ آپ کو فروہ بن نفاثہ جذامی نے دی تھی۔" صحیح مسلم: (1775)
ایسے ہی سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "دومۃ کے بادشاہ اکیدر نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ریشم کا کپڑا تحفے میں دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کپڑا علی رضی اللہ عنہ کو تھما دیا اور فرمایا: یہ فاطمہ نامی خواتین میں چادریں بنا کر تقسیم کر دو" اس حدیث کو امام بخاری: (2472) اور مسلم : (2071)نے روایت کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں اس چیز کی دلیل ہے کہ کافر سے تحفہ قبول کیا جاسکتا ہے" ختم شد
" شرح مسلم " ( 14 / 50 ، 51 )
اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "ایک یہودی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس زہر آلود بکری کا گوشت لے کر آئی تو آپ نے اس میں سے تناول فرمایا" اس حدیث کو امام بخاری: (2474) اور مسلم : (2190)نے روایت کیا ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے کہ:
"اگر غیر مسلم افراد مسلمانوں کو دینی خوشی کے موقع پر مٹھائی دیں تو وہ مت لیں البتہ دنیاوی خوشی مثلاً: بچے کی پیدائش وغیرہ کے موقعوں پر دیں تو اسے کھانا جائز ہے، کیونکہ یہ کافر سے تحفہ قبول کرنے کے زمرے میں آتا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے مشرکوں سے تحائف قبول فرمائے ہیں" ختم شد
شیخ عبد العزیز بن باز – الشیخ عبد العزیز آل الشیخ – الشیخ بكر ابو زید ۔
" فتاوى اللجنہ الدائمہ " (دوسرا ایڈیشن) (10/470)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میرا یک غیر مسلم پڑوسی ہے، وہ ہمیں مختلف خوشی کے موقعوں پر کھانا، اور مٹھائی وغیرہ بھیجتا رہتا ہے، تو کیا میرے اور میرے بچوں کے لیے وہ کھانا کھانا جائز ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ہاں ، آپ کافر شخص کے دیے ہوئے کھانے کو کھا سکتے ہیں بشرطیکہ آپ کو مکمل اطمینان ہو؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک یہودی عورت کا بکری کے گوشت کی صورت میں تحفہ قبول کیا ، اسی طرح ایک یہودی کی دعوت بھی قبول فرمائی کہ اس نے آپ کو اپنے گھر دعوت دی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس گھر کھانا تناول فرمایا۔
اس لیے کافروں کے تحائف قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نہ ہی ان کے گھر جا کر کھانے میں کوئی حرج ہے، تاہم یہ شرط ہے کہ مسلمان ان سے پر امن رہیں، چنانچہ اگر ان سے کسی قسم کا خطرہ یا خدشہ ہو تو دعوت قبول نہ کریں، اسی طرح دوسری شرط یہ بھی ہے کہ اس تحفے کا تعلق ان کی کسی مذہبی رسومات سے نہ ہو ، مثلاً: سالگرہ وغیرہ؛ کیونکہ کافروں کی مذہبی خوشی کے موقع پر ان سے تحائف قبول نہیں کیے جائیں گے" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب " (24/ 2)مکتبہ شاملہ کی خود کار ترقیم کے مطابق
واللہ اعلم