جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

نماز میں دونوں آنکھیں بند کرنے کا حکم

سوال

نماز میں دونوں آنکھیں بند کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل علم متفقہ طور پر نماز میں بلا ضرورت آنکھیں بند کرنے کو مکروہ کہتے ہیں، چنانچہ الروض کے مؤلف نے  صراحت کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ یہ یہودیوں کا عمل ہے، دیکھیں: ( الروض المربع 1/95)

اسی طرح "منار السبیل "  اور "الکافی" کے مؤلف نے مزید یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے نیند آنے کا خدشہ ہے، دیکھیں: ( منار السبيل 1/66 ، الكافي 1/285)

جبکہ الاقناع  اور المغنی کے مؤلف نے اسے مکروہ کہا ہے لیکن اگر ضرورت ہو تو جائز ہے جیسے کہ نمازی کو خدشہ ہو کہ آنکھیں کھلی رکھنے سے شرعی مخالفت لازم آئے گی ، مثال کے طور پر: اپنی لونڈی یا بیوی یا اجنبی عورت برہنہ حالت میں نظر  آئے، دیکھیں: (الإقناع 1/127 ، المغني 2/30)

اسی طرح تحفۃ الملوک کے مؤلف  نے بھی اس کے مکروہ ہونے کی صراحت کی ہے لیکن انہوں نے کسی قسم کی ضرورت ہونے یا نہ ہونے کا ذکر نہیں کیا، دیکھیں: ( تحفة الملوك 1/84 )

اور کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "یہ مکروہ ہے؛ کیونکہ یہ سنت سے متصادم ہے؛ کیونکہ نماز کی حالت میں سجدے کی جگہ پر دیکھنا شرعی عمل ہے، نیز یہ بھی کہ ہر عضو کا عبادت میں حصہ ہے چنانچہ اسی طرح آنکھوں کا بھی عبادت میں حصہ ہے" ختم شد
( بدائع الصنائع 1/503 )

مراقی الفلاح کے مؤلف نے نماز کے دوران آنکھیں بند کرنے کو مکروہ کہا ہے تاہم کہیں مصلحت کا تقاضا ہو تو جائز ہے، بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: بسا اوقات آنکھیں بند کرنا آنکھیں کھلی رکھنے سے بہتر ہو گا۔
( مراقي الفلاح 1/343 )

امام عز بن عبدالسلام رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں ضرورت کے وقت آنکھیں بند کرنے کی اجازت دی ہے کہ اگر اس سے نماز میں خشوع زیادہ پیدا ہونے کا امکان ہو تو ۔

جبکہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ اگر آنکھیں کھول کر رکھنے سے نماز میں خشوع زیادہ پیدا ہو گا تو  آنکھیں کھول کر رکھنا ضروری ہے، اور اگر آنکھیں بند کر کے رکھنے سے زیادہ خشوع پیدا ہو گا کہ مثلاً کوئی ایسے نقش و نگار یا کوئی اور چیز موجود ہے جس سے خشوع میں خلل پیدا ہوتا ہے تو پھر قطعی طور پر مکروہ نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں آنکھیں بند کرنے کو مستحب کہنا مقاصد شریعت سےمکروہ کہنے کی نسبت  قریب تر ہے۔ ( زاد المعاد 1/283 )

واللہ اعلم.

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد