الحمد للہ.
اول:
تمام اہل علم رحمہم اللہ کا اتفاق ہے کہ جن لوگوں کا خرچہ انسان کے ذمہ ہو تو انہیں زکاۃ نہیں دی جاسکتی، اس بارے میں تفصیل کیلئے سوال نمبر: (81122) کا مطالعہ کریں۔
چونکہ منگیتر کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتا جن کا خرچہ لڑکے کے ذمہ ہو، اس لئے اگر وہ زکاۃ کے مستحق ہیں تو انہیں زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
اس بارے میں " شرح الزركشي على الخرقي " (2/429) میں ہے کہ:
"عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اگر ایسے رشتہ دار ہیں جن کا خرچہ آپ کے ذمہ نہیں ہے تو انہیں اپنے مال کی زکاۃ دے دو، اور اگر آپ خود ہی ان کی کفالت کرتے ہو تو زکاۃ انہیں مت دیں، اور نہ ہی زکاۃ کا مال اپنی زیر کفالت افراد کے لئے بالواسطہ استعمال کریں" انتہی
چنانچہ جب انہیں زکاۃ تھما دی گئی تو یہ ان کی ملکیت ہوگئی، چنانچہ اب وہ اپنی ضروریات میں اسے صرف کر سکتی ہے، چاہے تعلیم مکمل کرنے کیلئے یا شادی کی تیاری کیلئے۔
لیکن ۔۔۔ ایک شرط ہے کہ شادی کی تیاری کرتے ہوئے ایسی چیزیں مت خریدے جن کی خریداری خاوند کے ذمہ ہوتی ہے، تا کہ کہیں خاوند اپنی ذمہ داری اپنی ہی زکاۃ سے پوری ک
رنے کی کوشش نہ کرے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص شرعی طور پر کچھ رقم وصول کرے تو یہ اس کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے، اسے کھلی اجازت ہے کہ جائز امور میں جہاں مرضی خرچ کرے" انتہی
" فتاوى نور على الدرب "
پہلے سوال نمبر: (21975) میں گزر چکا ہے کہ شادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اعتدال کیساتھ زکاۃ صرف کی جا ئے، اوراسے اسراف کے ساتھ خرچ نہ کیا جائے۔
واللہ اعلم.