اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نکاح حلالہ کسے کہتے ہیں؟

سوال

نکاحِ حلالہ کیا ہوتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خاوند نے اگر اپنی بیوی کو دو بار طلاق دی ہو تو شریعت نے اسے واپس اپنے عقد میں لانے کی اجازت دی ہے، دو بار طلاق کو رجعی طلاق کہتے ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ
 ترجمہ: [رجعی ] طلاق دو بار ہے؛ چنانچہ اچھے طریقے سے بیوی کو روک کر رکھو یا احسان کرتے ہوئے اسے چھوڑ دو۔ [البقرۃ: 229]

لیکن اگر خاوند تیسری بار بھی طلاق دے دے تو بیوی خاوند کے لیے حرام ہو جائے گی ، اور خاوند نئے عقدِ نکاح اور نئے حق مہر کے ساتھ بھی اسے اپنے عقد میں نہیں لا سکتا۔ ہاں ایک صورت ہے کہ یہ خاتون کسی اور مرد سے تمام شرائط و ضوابط کو پورا کرتے ہوئے نکاحِ صحیح کرے جو کہ عارضی نکاح نہ ہو، اور وہ مرد اس خاتون کے ساتھ خلوت بھی اختیار کرے، پھر طلاق دے دے یا فوت ہو جائے [تو عدت مکمل کرنے کے بعد یہ خاتون پہلے والے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے۔] فرمانِ باری تعالی ہے: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ترجمہ: اگر خاوند بیوی کو [تیسری بار بھی]طلاق دے دے تو وہ عورت اس کے لیے تب تک حلال نہیں ہو گی جب تک وہ کسی اور خاوند سے نکاح کر لے۔ پس اگر وہ بھی اسے طلاق دے دے تو اِن دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ باہمی رضا مندی سے رجوع کر لیں۔ بشرطیکہ وہ گمان کریں کہ اللہ تعالی کی حدود کی پاسداری کریں گے۔ یہ اللہ تعالی کی حدیں ہیں، جنہیں اللہ تعالی ایسی قوم کے لیے بیان کرتا ہے جو علم رکھتی ہے۔ [البقرۃ: 230]

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: "رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے شادی کی، اور پھر اسے تیسری طلاق بھی دے دی، تو اس عورت نے آگے کسی سے شادی کر لی۔ شادی کے بعد وہ عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور اس نے بتلایا کہ: اس کا دوسرا خاوند اس کے پاس نہیں آتا۔ [مطلب یہ ہے کہ ابھی تک اس نے مجھ سے جسمانی تعلقات نہیں بنائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی بات سے سمجھ گئے کہ یہ خاتون دوبارہ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہے۔] تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نہیں، [اس وقت تک تم واپس رفاعہ سے نکاح نہیں کر سکتی] جب تک وہ تمہاری مٹھاس چکھ لے اور تم اس کی مٹھاس چھک لو۔ [ہم بستری اور جماع مراد ہے۔] ) " اس حدیث کو امام بخاری: (5011) اور مسلم : (1433) نے روایت کیا ہے۔

دوم:

طلاق دہندہ مرد اور طلاق یافتہ عورت کے لیے شرعی امور میں حیلے بازی کرنا حرام ہے، اس سلسلے میں معاشرے میں معروف حلالہ کرنا جائز نہیں ہے، اور حلالہ کے لیے نکاح کی کئی صورتیں ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں:

1-طلاق دہندہ مرد یا طلاق یافتہ عورت یا عورت کا ولی کسی انسانی "سانڈ" کو کرائے پر دستیاب کرے، اور اس سے یہ بات پہلے طے کی جائے کہ یہ سانڈ طلاق یافتہ عورت سے نکاح کرے گا، اور ہم بستری کر کے اسے طلاق دے دے گا، اور اس کام کے لیے اسے مالی معاوضہ بھی دیا جائے!

2-کوئی آدمی اس طلاق یافتہ عورت سے کسی سے بھی بات طے کیے بغیر نکاح کرے، اور اس کا مقصد یہ ہو کہ پہلے خاوند کے لیے عورت حلال ہو جائے اور پھر طلاق دے دے گا۔

حلالہ کے لیے نکاح کرنا حرام اور فاسد عقد ہے، ایسا کرنے والا شخص لعنت کا مستحق ہے۔

جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1120) نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے، اسی طرح امام نسائی: (3416) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن القطان اور ابن دقیق العید رحمہما اللہ نے اس حدیث کو امام بخاری کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔" ختم شد

" التلخيص الحبير " ( 3 / 372 )

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں پر لعنت فرمائی: یہ یا تو اللہ تعالی کی طرف سے خبر ہے کہ ان دونوں پر اللہ تعالی کی طرف سے لعنت ہوتی ہے۔ یا پھر یہ ان دونوں کے خلاف لعنت کی بد دعا ہے۔ ہر دو صورت میں یہ اس عمل کے حرام ہونے کی دلیل ہے۔ اور یہ کہ یہ عمل کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔" ختم شد
" زاد المعاد في هدي خير العباد " ( 5 / 672 )

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا میں کرائے کے سانڈ کے متعلق نہ بتاؤں (کہ وہ کون ہوتا ہے؟ ) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا: جی ہاں (بتائیے) اے اللہ کے رسول! فرمایا: وہ حلالہ کرنے والا ہے، اللہ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے (دونوں) پر لعنت فرمائی ہے۔) اس حدیث کو ابن ماجہ رحمہ اللہ : (1936)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

مذکورہ احادیث حلالہ کرنے کو حرام قرار دیتی ہیں، اور یہ کہ یہ عمل کبیرہ گناہوں میں شامل ہے، اور اس سے مطلوبہ فائدہ بھی حاصل نہیں ہو گا۔

جیسے کہ " الموسوعة الفقهية " ( 10 / 256 ، 257 ) میں ہے کہ:
"سابقہ دونوں حدیثوں کی وجہ سے مالکی، شافعی، حنبلی اور احناف میں سے ابو یوسف جمہور علمائے کرام نے ایسے نکاح کو فاسد قرار دیا ہے۔ ویسے بھی عورت کو سابقہ خاوند کے لیے حلال کرنے کی نیت میں وقتی نکاح ہو گا، اور نکاح کرتے ہوئے وقت کی قید لگانے سے نکاح فاسد ہو جاتا ہے۔ تو جب نکاح ہی فاسد ہو گیا تو فاسد نکاح سے ایسی عورت سابقہ خاوند کے لیے حلال نہیں ہو گی۔ اس موقف کی تائید سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے موقف سے ہوتی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا: "اللہ کی قسم! میرے پاس کوئی بھی حلالہ کرنے والا اور کروانے والا لایا گیا تو میں ان دونوں کو ہی رجم کر دوں گا۔"" ختم شد

الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ قبیح ترین باطل عمل اور بد ترین گھناؤنا پاپ ہے، ایسا شخص معنوی طور پر زانی ہے؛ کیونکہ اس نے نکاح بیوی بنانے کے لیے کیا ہی نہیں ہے کہ پاکدامنی اور اپنے آپ کو عفت دینے کے لیے نکاح ہو، اسے اپنی اس بیوی سے اولاد نہیں چاہیے۔ یہ تو صرف کرائے کا سانڈ ہے، تا کہ ایک بار جماع کرنے سے سابقہ خاوند کے لیے یہ عورت حلال ہو جائے، اور ایک بار جماع کر کے اس سے الگ ہو کر چھوڑ کر چلا جائے گا۔ یہ حلالہ کرنے والا شخص ہے، اس کا تو نکاح ہی باطل اور غیر شرعی ہے۔ حلال کرنے کی نیت اور ارادے سے ہونے والے نکاح کی بدولت یہ عورت اپنے سابقہ خاوند کے لیے حلال نہیں ہو گی؛ کیونکہ یہ نکاح فاسد ہے اس کی بنا پر حلالہ کرنے والا شخص بھی اس عورت سے جسمانی تعلق نہیں بنا سکتا، نہ ہی یہ عورت حلالے کے بعد پہلے خاوند کے لیے حلال ہو گی؛ کیونکہ یہ نکاح اور شادی ہے ہی نہیں۔ جبکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا: حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ ترجمہ: حتی کہ عورت کسی اور خاوند سے نکاح کرے۔[البقرۃ: 230] جبکہ حلالے میں تو مرد کرائے کا سانڈ ہوتا ہے، شرعی خاوند تو ہوتا ہی نہیں ہے، لہذا حلالے کی وجہ سے پہلے خاوند کے لیے یہ عورت حلال نہیں ہو گی۔" ختم شد
" فتاوى الشيخ ابن باز " (20 / 277 ، 278 )

حلالے کی متعدد صورتیں حرام اور فاسد ہونے میں یکساں ہیں کسی میں کوئی فرق نہیں ہے کہ حلالے کی شرط عقدِ نکاح میں وضاحت کے ساتھ لکھی گئی ہو، یا حلالے کے عقدِ نکاح میں لکھی تو نہ گئی ہو لیکن مشروط ضرور ہو، یا دوسرے خاوند نے پہلے کے لیے حلال کرنے کا ارادہ خود ہی کیا ہو، اسے کسی نے نہ کہا ہو اور نہ ہی ایسی کوئی شرط لگائی گئی ہو، تو حلالے کی یہ تمام صورتیں حرام ہیں۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل مدینہ، اہل حدیث اور ان دونوں سے تعلق رکھنے والے فقہائے کرام کے ہاں حلالے کی شرط لگانے، یا غیر مشروط حلالے کا ارادہ کرنے ، یا غیر ملفو ظ حلالے کی شرط سے نکاح کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے؛ کیونکہ ان کے ہاں کوئی بھی عقد کرتے ہوئے اس کا مقصد ہی اصل معتبر ہوتا ہے۔ حدیث کے مطابق بھی اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ اور حلالے کی ایسی شرط جو اراکینِ عقد کے ہاں زبان سے واضح کیے بغیر مسلمہ ہو تو یہ ان تمام فقہائے کرام کے ہاں ملفوظ شرط کا حکم رکھتی ہے؛ کیونکہ صرف الفاظ بذات خود مقصود نہیں ہوتے، بلکہ الفاظ کسی معنی کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں، اور اگر معنی و مقصد الفاظ کے بغیر ہی واضح ہو تو پھر لفظوں کا اعتبار نہیں رہتا؛ کیونکہ الفاظ تو محض معانی واضح کرنے کے ذرائع ہوتے ہیں، اور یہاں الفاظ جیسی تاثیر سامنے موجود ہے اس لیے غیر ملفوظ شرط بھی ملفوظ شمار ہو گی۔" ختم شد
" زاد المعاد في هدي خير العباد " ( 5 / 110 )

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص کسی عورت سے حلالے کی شرط پر نکاح کرے، یا حلالے کی شرط تو نہ ہو لیکن نیت ہو ، یا دونوں باہمی اتفاق رائے سے حلالے کے لیے نکاح کریں تو یہ عقدِ نکاح باطل ہے، اور نکاح صحیح نہیں ہے۔" ختم شد
فتاوی دائمی فتوی کمیٹی: (18/439)

امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی کتاب "السنن الکبری "( 7 / 208 ) میں جناب نافع رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا: "ایک شخص سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ایک آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تھیں، تو طلاق یافتہ عورت سے طلاق دہندہ کے بھائی نے بغیر کسی باہمی اتفاق کے شادی اس لیے کی کہ بھائی کے لیے دوبارہ اس سے نکاح کرنا حلال ہو جائے تو کیا ایسے نکاح کے بعد عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائے گی؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: نہیں ہو گی، الا کہ نکاح [بیوی اور اپنے بچوں کی ماں بنانے کی ] رغبت سے ہو۔ ہم ایسے نکاح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں زنا شمار کیا کرتے تھے۔" ختم شد

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر دوسرے خاوند نے یہ نیت کی کہ جیسے ہی عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائے گی تو میں اسے طلاق دے دوں گا۔ تو یہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہو گی، اور نکاح باطل ہو گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ: اس شخص نے حلالے کی نیت کی ہے، لہذا یہ شخص ملعون قرار پائے گا، اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یقیناً اعمال کا دارو مدار ان کی نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو اسی کی نیت کے مطابق صلہ ملے گا۔)" ختم شد
" الشرح الممتع على زاد المستقنع " ( 12 / 176 ، 177 )

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حلالے کی تمام تر صورتیں ایک ہی پیراگراف میں جمع کی ہیں اور ان سب کو حرام اور باطل قرار دیا ہے، آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" حلالہ کرنے والے کا نکاح حرام اور باطل ہے، ایسے نکاح سے بیوی سابقہ خاوند کے لیے حلال بھی نہیں ہوتی اس کی صورت یہ ہے کہ: جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین دفعہ طلاق دے دیتا ہے، تو بیوی خاوند کے لیے حرام ہو جاتی ہے تا آں کہ وہ عورت کسی اور سے نکاح کرے، جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے، اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنَّت میں آیا ہے، اور اسی موقف پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ساری امت نے اتفاق بھی کیا ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص اس نیت کے ساتھ اس کی بیوی سے نکاح کرے کہ وہ اسے طلاق دے گا تا کہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائے، تو یہ نکاح حرام اور باطل ہو گا، چاہے بعد میں اس نے اس عورت کو اپنی بیوی کے طور پر رکھنے کا عزم کر لیا ہو یا چھوڑ دیا ہو، اور چاہے نکاح کے عقد کے دوران اس شرط پر رکھی گئی ہو یا نکاح کے عقد سے پہلے یہ شرط لاگو کی گئی ہو ، یا یہ شرط غیر ملفوظ ہو۔۔۔۔ ، یا ایسی کوئی بات کسی کے ذہن میں نہ ہو صرف دوسرے شخص نے یہ سوچ کر نکاح کیا ہو کہ وہ اسے تین مرتبہ طلاق دے دے گا اس دوسرے شخص کی نیت کے بارے میں عورت کو یا اس کے ولی کو کچھ بھی معلوم نہ ہو، چاہے تین مرتبہ طلاق دینے والا اس بات کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، مثلاً: حلالہ کرنے والا یہ سمجھے کہ یہ عمل اچھا اور نیکی کا کام ہے اور طلاق دہندہ کو اپنی مطلقہ کے ساتھ دوبارہ جڑنے کا موقع ملے گا اور حلالہ کرنے والا یہ دیکھ رہا ہو کہ طلاق کی وجہ سے ان دونوں کو اور ان کے بچوں اور خاندان کو نقصان پہنچ رہا ہے، یا کسی اور قسم کا گزند پہنچ رہا ہے تب بھی یہ جائز نہیں ہے۔

بلکہ تین طلاق دینے والے کے لیے اس وقت تک اس عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے جب تک وہ عورت کسی اور ایسے مرد سے شادی کرے جو اسے اپنی ہمیشہ کے لیے بیوی بنانا چاہتا ہوں وقتی یا خفیہ نکاح نہ ہو، پھر اس کے ساتھ ہم بستری بھی ایسے کرے کہ بیوی خاوند کی مٹھاس چکھ لے اور خاوند بیوی کی مٹھاس چکھ لے، پھر اگر بعد میں ان دونوں کے درمیان خاوند کی وفات کی وجہ سے یا طلاق کی وجہ سے جدائی ہو جائے یا نکاح فسخ ہو جائے تو پھر پہلا خاوند اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے۔ یہی وہ موقف ہے جو کتاب اور سنت سے ہمیں ملتا ہے، یہی موقف ہمیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام ، تابعین عظام اور دیگر فقہائے اسلام نے بیان کیا ہے۔۔۔ یہی موقف مالک بن انس اور ان کے شاگردوں ، اوزاعی ، لیث بن سعد اور سفیان ثوری رحمہم اللہ جمیعا کا ہے، اور یہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا موقف بھی ہے ؛ اسی طرح محدث فقہائے کرام کا بھی یہی موقف ہے جیسے کہ: اسحاق بن راہویہ ، ابو عبید القاسم بن سلام ، سلیمان بن داؤد ہاشمی ، ابو خیثمہ زہیر بن حرب ، ابو بکر بن ابی شیبہ ، ابو اسحاق الجوزجانی اور دیگر محدثین کا ہے۔ اور یہی امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی موقف ہے۔" ختم شد

" إقامة الدليل على إبطال التحليل " ( ص 6 – 8 )، ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حلالے کے حرام ہونے کے بارے میں دیگر بہت سے اقوال بھی ذکر کیے ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب