اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

قرآن مجیدمیں امثال کافائدہ

22298

تاریخ اشاعت : 10-07-2003

مشاہدات : 9989

سوال

ہم قرآن میں مثالیں بہت زيادہ دیکھتیں ہیں ان مثالوں کا فا‏ئدہ کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہيں :

ہم نے اس قرآن میں ہر ہر طریقے سے لوگوں کے لیےتمام کی تمام مثالیں بیان کردی ہیں لیکن انسان سب سے زيادہ جھگڑالو ہے الکھف ( 54 ) ۔

قرآن کریم کی ان اور ایسی ہی دوسری مثالوں میں عبرت و اوروعظ ونصحیت اور ڈانٹ سے بھری عظیم مثالیں ہیں اس کے ساتھ حق کا التباس نہیں ہوسکتا ، لیکن ان مثالوں کے معانی اہل علم ہی سمجھتے ہیں جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس فرمان میں ذکر کیا ہے :

ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان فرمارہے ہیں انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں العنکبوت ( 43 ) ۔

اور مثالیں بیان کرنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ اس سے نصحیت حاصل کریں ، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے اس فرمان میں فرمایا ہے :

اورہم یہ مثالیں لوگو ں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں الحشر ( 21 ) ۔

اور اللہ تعالی نے دوسرے مقام پر یہ بیان کیا ہے کہ مثالوں کے ساتھ حق کی وضاحت کی جاتی ہے تا کہ اس سے کچھ لوگ ھدایت اختیارکرلیں اور کچھ لوگ اس سے گمراہ ہوجاتے ہیں ، جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :

یقینا اللہ تعالی کسی مثال کے بیان کرنے سے شرماتا نہیں ، خواہ وہ مثال مچھر کی یا اس اس سے بھی ہلکی چیز کی ، ایمان والے تو اسے اپنے رب کی جانب سے صحیح سمجھتے ہیں ، اور کفار کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ تعالی نے کیا مراد لی ہے ؟ ، اس کے ذریعہ بیشتر کو گمراہ کرتا اوراکثرلوگوں کوراہ راست پر چلاتا ہے ، اور گمراہ تو صرف فاسقوں کوہی کرتا ہے البقرۃ ( 26 ) ۔

اوراس میں کوئ شک وشبہ نہیں کہ جو لوگ اس کوتسلیم کرتے ہیں وہ ہی عقل منداورعالم ہیں جنہوں نے ان مثالوں کے معانی سمجھے اوران میں جو حق بیان ہوا ہے اس سے مستفید ہوۓ ، اور جنہوں نے ان مثالوں کوتسلیم نہیں کیا یہ وہی لوگ ہیں جو ان کوسمجھے ہی نہیں ، اور نہ ہی انہیں اس کا علم ہوا کہ ان مثالوں میں کن حقائق کی وضاحت کی گئ ہے ۔

تو پہلا فریق وہی ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے یہ فرمایا کہ اس کے ذریعہ اکثر کو راہ راست پر چلاتا ہے ۔

اور دوسرا فریق وہ ہے جس کے بارہ میں اللہ تبارک وتعالی کا فرمان یہ ہے اور گمراہ تو صرف فاسقوں کوہی کرتا ہے ۔ .

ماخذ: اضواء البیان للشنقیطی ( 4 / 143 - 144 )