الحمد للہ.
زندگی اور موت اللہ تعالی کے فیصلوں اور تقدیر کے مطابق ملتی ہے، اللہ تعالی نے مخلوقات کی تخلیق سے بھی پچاس ہزار سال پہلے اپنے پاس لوح محفوظ میں ہر ایک کی موت کا وقت لکھا ہوا ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اللہ تعالی نے لوح محفوظ میں اپنے کامل علم کی روشنی میں سب کچھ لکھ لیا ہے اور اللہ تعالی کے علم میں کسی قسم کی غلطی کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہو سکتا، نیز اللہ تعالی کی مشیئت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آتی، فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ [10] وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
ترجمہ: اور جو کچھ ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اس میں سے وہ وقت آنے سے پہلے پہلے خرچ کر لو کہ تم میں سے کسی کو موت آئے تو کہنے لگے : "اے میرے پروردگار! تو نے مجھے تھوڑی مدت مزید مہلت میں کیوں نہ دی کہ میں صدقہ کر لوں اور نیک لوگوں میں شامل ہو جاؤں۔ [10] حالانکہ جب کسی کی موت آ جائے تو پھر اللہ کسی کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ [المنافقون:10-11]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [2] أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ [3] يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
ترجمہ: نوح نے کہا: اے میری قوم! میں تمہارے لیے واضح ڈرانے والا ہوں [2] تم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو نیز میری ہی اطاعت کرو [3] اللہ تعالی تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں ایک وقت مقررہ تک مہلت دے گا، یقیناً جب اللہ تعالی کی مقرر کردہ مدت پوری ہو جائے تو وہ مؤخر نہیں کی جاتی۔ کاش کہ تم جانتے ہوتے۔ [نوح:2-4]
مذکورہ بالا تفصیلات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ موت کا معاملہ اللہ تعالی کے پیدا کردہ دنیاوی اسباب سے ماورا ہے! لہذا موت کا معاملہ بھی دیگر تمام دنیاوی امور جیسا ہے؛ موت بھی مادی اسباب کے ساتھ منسلک ہے اور یہ مادی اسباب بھی لوح محفوظ میں لکھے ہوئے ہیں۔
انسان کو ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، چنانچہ ہلاکت کا باعث بننے والے اسباب کے بارے میں بھی میانہ روی اختیار کرے، لہذا ذاتی تحفظ اور بچاؤ کے لیے مبالغہ آرائی سے کام مت لے؛ کیونکہ اگر کوئی مبالغہ آرائی سے کام لے تو وسوسے اس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، اسے یہی لگے گا کہ تمام حرکات و سکنات ہی اس کی موت اور تباہی کا پیغام ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہی گاڑیوں اور ٹرکوں کے درمیان چلتے ہوئے انسان کے ذہن میں موت کے اسباب اور موت کا خوف منڈلانے لگے گا۔ اب ہر وقت اس کیفیت میں رہنا غلط بات ہے، کوئی بھی صاحب عقل و دانش ایسا نہیں کرتا۔
ساتھ ہی یہ بھی ہو کہ اپنے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کسی قسم کی کمی بھی نہ کرے؛ لہذا اپنے آپ کو خطرات کے درپے نہ کرے، نہ ہی ذاتی تحفظ کے اسباب کو چھوڑے۔ اور یہ عقیدہ رکھے کہ تمام معاملات اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں، بلکہ اپنی سلامتی کے لیے اسباب اور وسائل بھی اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں اختیار کرے۔ جب انسان ان اسباب کو اپنا لے گا تب بھی وہی کچھ ہو گا جو اللہ تعالی چاہے گا۔
ہم یہاں پر سائل کو ایک بہترین مثال کے ذریعے سمجھاتے ہیں اس مثال میں عظیم صحابی رسول کی سیرت اور نصیحت ہے؛ یعنی سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ معرکوں اور میدان جنگ میں گزارا لیکن اس کے باوجود آپ کی وفات بستر پر ہوئی؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فیصلہ یہی تھا کہ آپ کی وفات ایسے ہی ہو۔
تو اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ موٹر سائیکل خریدنے پر خدشات اور خطرات لاحق ہوں اس کی کوئی معقول وجہ بھی ہو سکتی ہے ؛ وہ اس طرح کہ غالب گمان کے مطابق یہ سمجھا جائے کہ نقل و حمل کے وسائل و ذرائع میں سے موٹر سائیکل سب سے زیادہ حادثات کا شکار ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات کسی خاص شخص کے بارے میں اس لیے کہنا کہ اسے موٹر سائیکل چلانے کا طریقہ صحیح طرح سے نہیں آتا، یا پھر وہ ایسی جگہوں پر چلاتا ہے جہاں حادثات زیادہ ہوتے ہیں یا اسی طرح کی کوئی خاص وجہ موجود ہے تو اس خاص شخص کے بارے میں یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لہذا وہ شخص موٹر سائیکل چلانے سے گریز کرے تو یہ تحفظ کے شرعی اسباب اپنانے میں شمار ہو گا، یہ شخص مذکورہ حالات میں موٹر سائیکل نہیں چلاتا تو یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالنے کی عملی صورت ہو گی لیکن ساتھ میں اس بات پر بھی ایمان رہے کہ اللہ تعالی کی لکھی ہوئی تقدیر ہر حالت میں پوری ہو کر رہتی ہے اور ہر چیز کے لیے اللہ تعالی نے مقررہ وقت لکھ دیا ہے۔
یہاں غیر شرعی بات یہ ہے کہ انسان موٹر سائیکل یا اس جیسی دیگر سواریوں پر سفر کرنے سے بغیر کسی معقول اور قابل قبول سبب کے بچنا شروع کر دے، تو اس صورت میں ایسے بلا وجہ خوف کو "Phobia" فوبیا یعنی خوف کا مرض کہتے ہیں؛ اس سے بچاؤ کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے چنانچہ اس کے لیے معقول نفسیاتی علاج کا سہارا بھی لینا پڑے تو کوئی حرج نہیں، علاج کے دوران یہ نظریہ اور عقیدہ پختہ رکھیں کہ سب کچھ اللہ تعالی کی تقدیر سے ہی ممکن ہے، اسباب اپنانے سے اللہ تعالی کی لکھی ہوئی تقدیر تبدیل نہیں ہوتی، بلکہ یہ اسباب بھی تقدیر میں لکھے ہوئے ہیں۔
واللہ اعلم