الحمد للہ.
ادیان اگر الگ الگ بھی ہوں تو تب بھی نسب قائم اور ثابت رہتا ہے، دین مختلف ہونے سے خونی رشتہ اور محرم پن ختم نہیں ہوتا؛ چنانچہ اگر باپ یا بھائی عیسائی ہو تو وہ اپنی بیٹی اور بہن کے محرم ہی ہوں گے، چاہے بہن سگی ہو یا پھر ماں یا باپ کی طرف سے بہن ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان اس بارے میں عام ہے، اس میں تمام تر صورتیں شامل ہیں:
( وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ ... )
ترجمہ اور مومن عورتوں سے بھی کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو جائے۔ اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : خاوند، باپ، خاوند کے باپ (سسر) بیٹے، اپنے شوہروں کے بیٹے (سوتیلے بیٹے) بھائی، بھتیجے، بھانجے ۔۔۔ [النور:31]
علامہ سرخسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور [محرم ہونے کے حکم میں] کوئی فرق نہیں پڑتا کہ محرم آزاد ہو یا غلام، مسلمان ہو یا کافر؛ کیونکہ ہر دیندار شخص اپنے خونی رشتہ داروں کا تحفظ کرتا ہے، لیکن اگر محرم مجوسی ہے تو پھر اس کے ساتھ مت جائے؛ کیونکہ مجوسی اپنی خونی رشتہ دار خواتین کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں اس لیے مجوسی اپنی محرم خواتین کی جانب بھی بری نگاہ رکھ سکتا ہے، اس لیے کوئی خاتون اپنے مجوسی محرم کے ساتھ سفر مت کرے اور نہ ہی اس کے ساتھ تنہائی اختیار کرے" ختم شد
"المبسوط" (4/ 111)
اسی طرح علامہ دردیر "الشرح الكبير" (1/ 215) میں لکھتے ہیں کہ:
"اور عورت اپنے محرم مرد -چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو-کے جسم میں سے وہ جگہ دیکھ سکتی ہے جو مرد دوسرے مرد کی دیکھ سکتا ہے یعنی ناف سے گھٹنے تک کے علاوہ [جگہ دیکھ سکتی ہے] " ختم شد.