جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

ادیان چاہے مختلف ہوں خونی رشتہ پھر بھی قائم رہتا ہے۔

223574

تاریخ اشاعت : 08-02-2018

مشاہدات : 3993

سوال

ایک عیسائی لڑکی نے عیسائی لڑکے سے شادی کی اور ان کے دو بیٹے ہوئے، پھر ان میں علیحدگی ہو گئی، اس کے بعد عیسائی لڑکی کی ایک مسلمان لڑکے سے شادی ہوئی اور ان کے ہاں ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی، تو کیا ایسی صورت میں سابقہ دونوں بیٹے دوسری شادی سے پیدا ہونے والی لڑکی کے بھائی ہوں گے؟ اور کیا وہ ایک ہی گھر میں رہ سکتے ہیں؟

جواب کا خلاصہ

خلاصہ کلام یہ ہے کہ: یہ دونوں لڑکے اس لڑکی کے ماں کی طرف سے بھائی ہیں اور یہ تینوں ایک ہی گھر میں رہ سکتے ہیں؛ کیونکہ یہ آپس میں بہن بھائی ہیں۔ تاہم اگر مسلمان لڑکی کو اپنے دونوں عیسائی بھائیوں  یا ان میں سے کسی ایک کی جانب  سے اخلاقی یا دینی خطرے کا اندیشہ ہو تو پھر ایسی صورت میں مسلمان لڑکی اپنے ان بھائیوں کے ساتھ رہائش مت اختیار کرے۔ لیکن اگر وہ دونوں بھائی اپنی بہن کا تحفظ کرنے والے امانتدار ہوں تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (21953) کا جواب ملاحظہ کریں۔ واللہ اعلم.

جواب کا متن

الحمد للہ.

ادیان اگر الگ الگ بھی ہوں تو تب بھی نسب  قائم اور ثابت رہتا ہے، دین مختلف ہونے سے خونی رشتہ  اور محرم پن ختم نہیں ہوتا؛ چنانچہ اگر باپ یا بھائی عیسائی ہو تو وہ اپنی بیٹی اور بہن کے محرم ہی ہوں گے، چاہے بہن سگی ہو یا پھر ماں یا باپ کی طرف سے بہن ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان اس بارے میں عام ہے، اس میں تمام تر صورتیں شامل ہیں:
( وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ ... )

ترجمہ  اور مومن عورتوں سے بھی کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو  جائے۔ اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر  نہ کریں مگر ان لوگوں کے سامنے : خاوند، باپ، خاوند کے باپ (سسر) بیٹے، اپنے شوہروں کے بیٹے (سوتیلے بیٹے) بھائی، بھتیجے، بھانجے ۔۔۔ [النور:31]

علامہ سرخسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور [محرم ہونے کے حکم میں]  کوئی فرق نہیں پڑتا  کہ محرم آزاد ہو یا غلام، مسلمان ہو یا کافر؛ کیونکہ ہر دیندار شخص اپنے خونی رشتہ داروں کا تحفظ کرتا ہے، لیکن اگر محرم مجوسی ہے تو پھر اس کے ساتھ مت جائے؛ کیونکہ مجوسی اپنی خونی رشتہ دار خواتین کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں اس لیے مجوسی اپنی محرم خواتین  کی جانب بھی بری نگاہ رکھ سکتا ہے، اس لیے کوئی خاتون اپنے مجوسی محرم کے ساتھ سفر مت کرے اور نہ ہی اس کے ساتھ تنہائی اختیار کرے" ختم شد
"المبسوط" (4/ 111)

اسی طرح علامہ دردیر "الشرح الكبير" (1/ 215) میں لکھتے ہیں کہ:
"اور عورت اپنے محرم مرد -چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو-کے جسم میں سے وہ جگہ دیکھ سکتی ہے جو مرد دوسرے مرد کی دیکھ سکتا ہے یعنی ناف سے گھٹنے تک کے علاوہ [جگہ دیکھ سکتی ہے] " ختم شد.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب