ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

ایمان کی مضبوطی اور وسوسوں سے بچاؤ کے لیے دعائیں

سوال

میں نے ایک حدیث سنی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ: ایک شخص نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور آ کر کہنے لگا: ہائے میرے گناہ کتنے زیادہ ہیں!! تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: تم کہو: یا اللہ! تیری مغفرت میرے گناہوں سے وسیع ہے، اور مجھے تیری رحمت کی سب سے زیادہ امید ہے، تو پروردگار! مجھے معاف فرما دے۔ یہ دعا تین بار پڑھو۔
تو میرا سوال یہ ہے کہ گناہوں کی معافی کے لیے کون کون سی دعائیں ہیں؟ اور اسی طرح ایمان کی مضبوطی اور وسوسوں سے بچاؤ کے لیے دعائیں بھی بتلائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:
پہلے سوال نمبر: (3177) اور (39775 ) میں توبہ اور استغفار سے متعلق دعائیں گزر چکی ہیں۔

دوم:

ایمان نیکیوں سے بڑھتا ہے اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ایمان میں اضافہ چاہتا ہے تو اللہ تعالی کی اطاعت گزاری پر توجہ دے، اور اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچے، اس کے لیے اچھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے، اور بدعتی و نافرمان قسم کے لوگوں سے دور رہے۔

مسلمان کو اس کام کے لیے درج ذیل امور سے معاونت مل سکتی ہے:

-اللہ تعالی سے دین پر ثابت قدمی کی دعا کرے

چنانچہ علم والے اہل ایمان کی دعا کے متعلق فرمانِ باری تعالی ہے:
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ
 ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا مت کرنا، اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بہت زیادہ عنایت کرنے والا ہے۔[آل عمران: 8]

اسی طرح مسند احمد: (23463) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کثرت سے دعا کیا کرتے تھے: يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ یعنی: اے دلوں کو پھیرنے والے، میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم بنا دے۔ )اس پر سیدہ عائشہ کہتی ہیں: تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ یہ دعا بہت زیادہ پڑھتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (انسان کا دل اللہ تعالی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے، تو اللہ تعالی اسے جب چاہے ٹیڑھا کر دیتا ہے اور جب چاہے سیدھا کر دیتا ہے۔)"اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3522)نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا اور اسے حسن قرار دیا، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

-سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  اَللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي وَزِدْنِي عِلْمًا یعنی: یا اللہ! جو تو نے مجھے سکھایا ہے اسے میرے لیے مفید بنا، اور مجھے وہ کچھ سکھا جو میرے لیے مفید ہو، اور مجھے زیادہ علم عطا فرما۔ ) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3599)نے روایت کیا اور اسے حسن قرار دیا، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔ جسے اللہ تعالی علم نافع عطا فرما دے اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔

مسند احمد: (3797) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "وہ مسجد میں دعا مانگ رہے تھے کہ اسی دوران نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں آ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو سوال کرے گا تجھے دیا جائے گا۔) تو انہوں نے دعا کی:  اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ إِيمَانًا لَا يَرْتَدُّ، وَنَعِيمًا لَا يَنْفَدُ، وَمُرَافَقَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي أَعْلَى غُرَفِ الْجَنَّةِ ، جَنَّةِ الْخُلْدِ یعنی: یا اللہ! میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں جس میں ارتداد نہ ہو، اور ایسی نعمت مانگتا ہوں جو کبھی ختم نہ ہو، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت جنت کے اعلی بالا خانوں میں مانگتا ہوں یعنی جنت الخلد مانگتا ہوں۔"
تو جسے اللہ تعالی ایسا ایمان دے دے جس میں ارتداد نہ ہو تو یہ مضبوط ایمان ہے، ایسے ایمان کو شہوات اور شبہات کمزور نہیں کر سکتے۔

-اسی طرح اللہ تعالی سے ہدایت طلب کریں، صحیح مسلم: (2725) میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى، وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى یعنی: یا اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقوی، پاکدامنی اور بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔)

-اللہ تعالی سے خیر طلب کرے اور شر سے اللہ تعالی کی پناہ چاہے، اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سکھلائی ہوئی جامع دعا پڑھے، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یہ دعا سکھائی: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ ، مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِهِ عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، وَأَسْأَلُكَ أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ قَضَيْتَهُ لِي خَيْرًا یعنی: اے اللہ! میں تجھ سے ہر قسم کی خیر مانگتا ہوں، چاہے وہ جلدی ملنے والی ہے یا دیر سے ، اور وہ خیر بھی جس کا مجھ علم ہے اور وہ بھی جس کا مجھ علم نہیں۔ اے اللہ! میں ہر قسم کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں، جلدی آنے والے سے بھی، اور دیر سے آنے والے سے بھی ، جس کا مجھے علم ہے، اس سے بھی اور جس کا مجھے علم نہیں، اس سے بھی۔ یا اللہ! میں تجھ سے وہ خیر مانگتا ہوں جو تجھ سے تیرے بندے اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مانگی ہے۔ اور میں اس شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس شر سے تیرے بندے اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے پناہ مانگی ہے۔ یا اللہ ! میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور ہر اس قول و عمل کا سوال کرتا ہوں جو جنت کے قریب کر دے۔ اور میں آگ سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور ہر اس قول و عمل سے پناہ مانگتا ہوں جو آگ کے قریب کر دے۔ اور میں تجھ سے یہ بھی دعا مانگتا ہوں کہ تو جو بھی فیصلہ کرے اسے میرے لیے بہتر بنا دے۔" اس حدیث کو ابن ماجہ رحمہ اللہ (3846)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابن ماجہ" میں صحیح قرار دیا ہے۔

- اسی طرح اللہ تعالی سے دل میں تجدید ایمان کی دعا کرے، جیسے کہ مستدرک حاکم (5) میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً ایمان تمہارے سینے میں ایسے ہی بوسیدہ ہو جاتا ہے جیسے کپڑا بوسیدہ ہو جاتا ہے، تو اللہ تعالی سے دعا کرو کہ اللہ تعالی تمہارے دلوں میں ایمان تازہ فرما دے۔) ا س حدیث کو البانیؒ نے سلسلہ صحیحہ: (1585) میں حسن قرار دیا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (14041 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:

وسوسوں کا علاج ، وسوسوں کی طرف عدم توجہ سے بھی ممکن ہے، اس لیے آپ وسوسوں کی طرف دھیان مت دیں، کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کریں، زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں، اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑائیں، اسی کے سامنے اپنی حاجتیں رکھیں، اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ شیطانی ہتھکنڈوں سے آپ کو بچا لے، اور آپ کو حق پر ثابت قدم کر دے۔

شیطانی وسوسوں کو اپنے آپ سے دور بھگانے کے لیے درج ذیل دعائیں مفید ہیں:

-اللہ کی پناہ حاصل کریں، فرمانِ باری تعالی ہے: وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ 
ترجمہ: آپ کو اگر کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں، بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ [الاعراف: 200]

-شیطان سے تحفظ اور بچاؤ کی دعا کریں، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد آئے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام پڑھے اور کہے: اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ -یعنی: یا اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے-اور جب مسجد سے نکلنے لگے تو پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام پڑھے اور کہے: { اللَّهُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ } -یعنی: یا اللہ! مجھے شیطان مردود سے محفوظ فرما دے-) اس حدیث کو ابن ماجہ رحمہ اللہ (733)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابن ماجہ" میں صحیح قرار دیا ہے۔

-شیطان کے اکسانے اور حاضر ہونے سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کریں، فرمانِ باری تعالی ہے: وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ * وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ ترجمہ: اور کہہ: میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں شیاطین کے اکسانے سے، اور اے میرے رب! میں تیری اس بات سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس حاضر ہوں۔ [المؤمنون: 97 - 98]

-اللہ تعالی سے دعا کرے کہ شیطان کو دور فرما دے، چنانچہ ابو الازھر الانماری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت رات کو اپنے بستر پر لیٹتے تو فرماتے: بِسْمِ اللَّهِ وَضَعْتُ جَنْبِي اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي ، وَأَخْسِئْ شَيْطَانِي ، وَفُكَّ رِهَانِي ، وَاجْعَلْنِي فِي النَّدِيِّ الْأَعْلَى یعنی: اللہ کے نام سے میں نے اپنا پہلو رکھ دیا ۔ اے اللہ ! میرے گناہ بخش دے ، میرے شیطان کو مجھ سے دفع کر دے ، میرے نفس کو ( آگ سے ) آزاد کر دے اور مجھے اعلیٰ و افضل مجلس والوں میں بنا دے ۔ ) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ (5054)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔

چہارم:
سوال میں مذکور حدیث ضعیف ہے، اسے حاکم نے مستدرک: (1994) میں عبد اللہ بن محمد بن حنین کی سند سے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں مجھے عبد اللہ بن محمد بن جابر بن عبد اللہ نے ، وہ اپنے والد سے اور وہ داد سے بیان کرتے ہیں کہ: "ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: ہائے میرے گناہ! ہائے میرے گناہ! -اس شخص نے یہ بات دو، تین بار کہی-تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: تم کہو: (یا اللہ! تیری مغفرت میرے گناہوں سے وسیع ہے، اور مجھے تیری رحمت کی اپنی بد عملی سے زیادہ امید ہے) تو اس نے یہ الفاظ کہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے کہا: دو بارہ کہو، تو اس نے دوبارہ کہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے کہا: تیسری بار بھی کہو، تو اس نے تیسری بار دہرائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: (کھڑے ہو جاؤ، اللہ تعالی نے تمہیں بخش دیا ہے۔) اس حدیث کو البانی ؒ نے سلسلہ ضعیفہ: (9/ 58) میں ضعیف قرار دیا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب