الحمد للہ.
اول:
فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حج تمتع کرنے والا شخص اگر ہدی
کا جانور نہ پائے تو وہ حج میں تین روزے رکھے اور سات روزے گھر واپس آ کر رکھے، اس
کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
(فَمَنْ
لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا
رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ
)
ترجمہ: پس جو شخص [قربانی ]نہ پائے تو تین روزے حج کے ایام میں اور سات روزے جب تم
واپس آ جاؤ، یہ مکمل دس روزے ہیں۔[البقرة:196] انتہی
ماخوذ از: "الموسوعة الفقهية" (14/ 12-13)
دوم:
واجب یہی ہے کہ تین روزے ایام تشریق سے مؤخر نہ ہوں، اس بارے میں شیخ ابن عثیمین
رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"ایام تشریق میں تین روزے رکھنا جائز ہے، اور ایام تشریق ذو الحجہ کی 11، 12 اور 13
تاریخ کو کہتے ہیں، اسی طرح ایام تشریق سے پہلے لیکن عمرے کا احرام باندھنے کے بعد
بھی رکھ سکتا ہے، یہ بھی جائز ہے کہ یہ تین روزے تسلسل کے ساتھ یا الگ الگ رکھے،
لیکن ایام تشریق سے مؤخر نہ کرے، جبکہ بقیہ سات دن اس وقت رکھے گا جب حاجی اپنے اہل
خانہ میں واپس لوٹ آئے گا، یہ سات روزے بھی مسلسل یا الگ الگ رکھے جا سکتے ہیں" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (24/ 376)
اگر حج کے تین دنوں میں روزے نہیں رکھ سکا تو اس پر ان روزوں کی قضا ہے چاہے عذر کی بنا پر روزے چھوڑے یا بغیر عذر کے، البتہ بغیر عذر کے روزے ترک کرنے پر اس نے برا عمل کیا ہے اسے اپنے اس عمل کی اللہ تعالی سے توبہ کرنی ہو گی ، اپنے کیے پر پشیمان ہو اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم بھی کرے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اگر حج تمتع کرنے والا قربانی ذبح کرنے کی استطاعت نہ رکھے اور نہ ہی ان دنوں میں
روزے رکھ پائے تو وہ بعد میں یہ روزے ضرور رکھے گا چاہے اپنے وطن واپس آ کر رکھے"
انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (10/ 410)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص دوران حج رکھے جانے والے تین روزے بغیر عذر کے اتنے مؤخر کر دیتا ہے کہ حج
کے ایام گزر جاتے ہیں تو کیا اس پر فدیہ لازم ہے؟ صحیح بات یہ ہے کہ : اس پر فدیہ
لازم نہیں ہے۔ البتہ بعض فقہائے کرام کے اس معاملے میں موقف پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ
فدیہ لازم قرار دیتے ہیں، حالانکہ اس شخص کے پاس فدیہ نہیں ہے، بلکہ اس کے پاس
قربانی کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے روزے واجب ہوئے تھے! تو ہم کہتے ہیں کہ : یہ
تین روزے ایام حج میں رکھنا ضروری ہیں، لیکن اگر کوئی شخص ان روزوں میں تاخیر کا
شکار ہو جاتا ہے خصوصاً اگر تاخیر کسی شرعی عذر کی بنا پر ہو تو پھر وہ رمضان کی
طرح ان روزوں کی بھی قضا دے گا" انتہی
"الشرح الممتع" (7/ 180)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہ بھی پوچھا گیا تھا:
"ایک شخص نے حج تمتع کیا اور خیمے میں آگ لگ گئی جس کی وجہ سے اس کا سامان اور نقدی
رقوم سب خاکستر ہو گئیں تو وہ قربانی نہیں کر سکا، تو کیا اب اس پر کچھ لازم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"ہمیں نہیں معلوم کہ اس بھائی نے کیا کیا ہوگا؟ روزے رکھے تھے اس نے؟ کیونکہ آگ تو
آٹھ تاریخ کو لگی تھی، تو دس تاریخ آنے پر اس کے پاس پیسے نہیں ہوں گے، تو وہ روزے
رکھ سکتا تھا : گیارہ، بارہ، اور تیرہ تاریخ کے، نیز جب اپنے گھر واپس آتا تو بقیہ
سات روزے رکھ سکتا تھا؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَمَنْ
تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ
لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا
رَجَعْتُمْ
[البقرة: 196]
ترجمہ: پس جو شخص عمرے کے ساتھ حج کا فائدہ بھی اٹھائے تو وہ میسر قربانی کر دے اور
جو نہ پائے تو تین روزے حج کے ایام میں اور سات روزے جب تم واپس آ جاؤ
۔[البقرة:196] "
لہذا جب اس نے ایسا نہیں کیا تو اب اللہ کے حضور توبہ کرے اور گھر جا کر دس روز ے رکھے ،تین قضا کے طور پر اور سات ادا کے طور پر۔"
انتہی ازمجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (22/ 208)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"میں نے کئی سال پہلے فریضہ حج ادا کیا تھا لیکن میں نے عید کے دن قربانی نہیں کی
تھی؛ کیونکہ میرے پاس پیسے تھوڑے تھے، تو مجھے کہا گیا کہ: میں ایام حج میں تین روزے
رکھوں گا اور سات روزے اپنے وطن واپس جانے کے بعد رکھوں گا، لیکن میں اس بات کو
بھول گیا اور حج کے ایام میں تین روزے نہیں رکھ سکا، اسی طرح واپس آ کر بھی میں نے
سات روزے نہیں رکھے، تو اب کیا کروں؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔"
تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"اگر آپ نے حج اور عمرہ دونوں اکٹھے کئے تھے [یعنی حج تمتع یا قران کیا تھا ] تو آپ
پر اپنے علاقے میں دس روزے رکھنا واجب ہے۔" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (11/ 388)
اب چونکہ آپ نے دس روزے رکھ لیے ہیں تو اس طرح آپ نے اپنے ذمہ دس روزے چکا دئیے ہیں ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کی عبادات قبول فرمائے۔
واللہ اعلم.