اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

روایت (کتنے ہی قاری قرآن ہیں جن پر قرآن لعنت کرتا ہے) نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے۔

سوال

کیا کوئی ایسی حدیث ہے کہ کتنے ہی قرآن کو پڑھنے والے ہیں جنہیں قرآن لعنت کرتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مذکورہ حدیث کے بارے میں کسی دلیل کا علم نہیں ہے۔

البتہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی طرف علامہ غزالی ؒ نے "احیاء علوم الدین" میں اسے منسوب کیا ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں: "کتنے ہی قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔" ختم شد
" إحياء علوم الدين " (1 / 274)

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (3 / 213) دوسرا ایڈیشن ، میں ہے کہ:
"یہ بات میمون بن مہران سے منقول ہے، یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ: مسلمان کو قرآن کریم پر عمل کے بغیر پڑھنے سے خبردار کیا گیا ہے؛ کیونکہ کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو قرآن بھی پڑھتے ہیں اور ایسے کام بھی کرتے ہیں جن سے قران کریم روکتا ہے، مثلاً: قرآن کریم سودی لین دین سے روکتا ہے لیکن وہ پھر بھی سودی لین دین کرتا ہے، قرآن کریم ظلم سے روکتا ہے لیکن پھر بھی وہ ظلم کرتا ہے، اسی طرح قرآن کریم غیبت سے روکتا ہے لیکن وہ پھر بھی غیبت کرتا ہے، اسی طرح قرآن کریم کے دیگر احکامات اور ممنوعہ اعمال کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔" ختم شد

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے اس حدیث (کتنے ہی قرآن کو پڑھنے والے ہیں جنہیں قرآن لعنت کرتا ہے) کے بارے میں پوچھا گیا کہ قرآن کریم کیسے لعنت کرتا ہے؟

تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حدیث صحیح ثابت ہو مجھے علم نہیں ہے، اس لیے اس کی تفسیر میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اگر یہ صحیح ثابت ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ: قرآن کریم میں ایسی چیزیں جو اس شخص کی مذمت اور لعنت کا تقاضا کرتی ہیں، مثلاً: وہ شخص قرآن کریم بھی پڑھتا ہے لیکن اس کے احکامات کی مخالفت کرتا ہے، یا ممنوعہ کاموں کا ارتکاب کرتا ہے، وہ شخص اللہ کی کتاب بھی پڑھتا ہے لیکن قرآن کریم کے احکامات اور ممنوعات کا خیال نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ برا بھلا کہلائے جانے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
اگر یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہو جائے تو اس کا صحیح ترین معنی یہی ہو گا۔" ختم شد
" مجموع فتاوى ابن باز " (26 / 61)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب