الحمد للہ.
افضل تو یہی ہے کہ انسان خود اپنے ہاتھ سے قربانی کرے، اور اگر خود ذبح نہ کر سکتا ہو یا ذبح کرنے کی خواہش نہ رکھتا ہو تو وہ کسی اور کو ذبح کرنے کی ذمہ داری سونپ دے، اور خود ذبح کے وقت حاضر ہو جائے، اور اگر خود ذبح نہ کر سکتا ہو یا ذبح کرنے کی خواہش بھی نہیں ہے، اور نہ ذبح ہوتے ہوئے دیکھ بھی نہیں سکتا تو بھی کوئی حرج والی بات نہیں ہے، ذبح کے وقت قریب نہ آئے کوئی حرج نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی ذبح کرتے ہوئے کسی کو ذبح کرنے کی ذمہ داری سونپنا سب علمائے کرام کے ہاں جائز ہے، اور ذبح کے وقت حاضر ہونا مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور اگر قربانی کرنے والا اپنے ہاتھ سے ذبح کرے تو یہ افضل ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سینگوں والے چتکبرے دو مینڈھے خود اپنے ہاتھوں سے بسم اللہ ، اللہ اکبر کہہ کر قربان کیے، آپ نے انہیں ذبح کرتے ہوئے ان کے پہلو پر اپنا قدم بھی رکھا، اسی طرح اپنے حج کی قربانی کرتے ہوئے 63 اونٹ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھوں سے نحر کیے تھے۔
تاہم اگر کوئی شخص قربانی ذبح کرنے کے لیے کسی کو اپنا نمائندہ بنا لے تو یہ بھی جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے 63 اونٹوں کے بعد بقیہ اونٹ نحر کرنے کے لیے کسی کو اپنا نمائندہ مقرر کیا تھا، کسی کو اپنا نمائندہ بنانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تاہم ذبح کرتے وقت حاضر ہونا مستحب ہے" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
"المغنی "(13/389-390)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (10/441) میں ہے کہ:
"اگر قربانی نفلی ہو تو جس جس کی نیت کی جائے گی سب کو اس میں سے ثواب ملے گا، چاہے وہ قربانی کے وقت حاضر ہو یا نہ ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیشک اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے، اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا)" ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے سوال نمبر: (175475) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم