جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرنے کی فضیلت

سوال

سوال: جب دعا تمام لوگوں کے لیے کی جائے، تو کن خاص لوگوں تک پہنچتی ہے ؟کیا ایسے انسان کو بھی اس سے فائدہ ہوگا جس سے تعارف ہی نہیں ہے؟ یا کہ دعا کے وقت میرے ذہن میں جو لوگ آ رہے تھے صرف انہی لوگوں تک پہنچے گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عام مسلمان مرد اور عورتوں کے لیے دنیا اور آخرت  کی بھلائیوں کی دعا کرنا شرعی عمل ہے، مسلمانوں میں پائی جانے والی دوستی اور بھائی چارے سے مقصود بھی یہی ہے کیونکہ ایک مسلمان جس بھلائی کو اپنے لیے پسند کرتا ہے اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرتا ہے، اسی لیے تو وہ تمام مسلمانوں کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا سوال کرتا ہے ۔

اور جب کوئی مسلمان شخص اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے عمومی دعا کرتا ہے تو اس دعا کی برکت تمام مسلمانوں تک پہنچنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔

بخاری(831)اور مسلم(402) نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں: "جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے :سلام ہو جبریل و میکائیل پر، سلام ہو فلاں اور فلاں پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: (اللہ تو خود سلامتی والا  ہے، لہذا جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو یہ  کہے: "التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ "[تمام قسم کی قولی ،فعلی اور مالی عبادتیں اللہ کے لئے خاص ہیں ۔اے نبی آپ پر سلامتی ہو، اور اللہ کی رحمت اور برکت ہو، اور سلامتی نازل ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر]  کیونکہ اگر یہ کہو گے تو زمین و آسمان میں موجود اللہ کے ہر نیک بندے کو یہ دعا پہنچے گی ،[پھر تم بھی کہو:] " أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ " میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے اور بےشک محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں "

اور اگر کسی مسلمان نے کسی خاص شخص کے لیے دعا کا ارادہ کیا، پھر تمام مسلمانوں کے لیے دعا کر دی تو امید ہے کہ اس کی دعا تمام مسلمانوں تک پہنچے گی۔

 ابو داؤد(3201)نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پڑھایا جس میں یہ دعا پڑھی:(" اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا، وَمَيِّتِنَا، وَصَغِيرِنَا، وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اَللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ ، اَللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ"[اے اللہ! ہمارے زندوں اور مُردوں کو، چھوٹوں  اور بڑوں کو، مَردوں اور عورتوں کو، حاضرین اور غائبین  کو معاف فرما۔ اے اللہ! تو جسے زندہ رکھے تو ایمان کی حالت میں زندہ رکھ ،اورتو جسے فوت کرنا چاہے تو اسے اسلام کی حالت میں موت دے، اے اللہ ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ فرمانا اور نہ ہی اس کے بعد ہمیں گمراہ فرمانا]
البانی نے اسے "احکام الجنائز" (1/124) میں صحیح کہا ہے ۔

ملاعلی القاری "مرقاۃ" میں لکھتے ہیں:
"طیبی کہتے ہیں :قرائن اربعہ [چار قسم کے لوگوں یعنی زندہ و مردہ، حاضر  و غائب ،چھوٹے و بڑے ،مرد و عورت تمام کو اکٹھے ذکر کر کے دعا کرنا]سے مقصود دعا میں تمام لوگوں کا استیعاب اور شمولیت ہے ، چنانچہ ہر جملے کے مفردات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے تخصیص پر محمول نہیں کیا جائے گا۔ گویا کہ دعا ایسے کی گئی ہے: اے اللہ! تمام کے تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما" انتہی
"مرقاۃ  المفاتیح"(3/1208)

ابن علان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" (اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا، وَمَيِّتِنَا) یعنی مسلمانوں کے تمام زندوں اور فوت شدگان کو معاف فرما دے؛  کیونکہ  مفرد مضاف[مراد لفظ "حیی" اور "میت" جو ضمیر کی طرف مضاف ہیں] عموم پر دلالت کرتا ہے " انتہی
"دلیل الفالحین"(6/416)

اور "فقہ الأدعیۃ  والأذکار"(3/232) میں لکھا ہے:
"یہ دعا بڑی عظیم اور شاندار ہے، جو سامنے موجود میت کے علاوہ مسلمانوں میں سے زندہ و مردہ، چھوٹے و بڑے ،مرد و عورت ،اور موجود و غائب سب کو شامل ہے ؛کیونکہ محتاج و ضرورت مند ہونے میں سب یکساں ہیں بلکہ اللہ کی مغفرت، معافی اور اس کی رحمت کی سبھی کو ضرورت ہے " انتہی

مزید فائدے کے لئے سوال نمبر (140798)کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب