الحمد للہ.
مہر کی مقدار کا تعین عورت اور اس کے ولی کی مرضی پر ہوتا ہے۔ اگر عورت اور اس کا ولی مہر کی مقدار کے بارے میں اختلاف کریں، تو علماء کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیار ’’ مہر مثل ‘‘یعنی معمول کے مطابق مہر ہو گا۔ اگر عورت ’’ مہر مثل ‘‘پر راضی ہو، اور ولی اس سے زیادہ چاہے، تو ولی کی بات کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔ اگر ولی ’’ مہر مثل ‘‘چاہے، اور عورت اس سے کم پر راضی ہو، تو ولی کی بات معتبر ہو گی۔ اس کی مزید تفصیل سوال نمبر (224378) میں دیکھی جا سکتی ہے۔
جبکہ مہر کی مقدار کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے؛ لہذا جس پر دولہا اور دلہن یا دولہا اور ولی باہم راضی ہوں چاہے مقدار کم ہو یا زیادہ وہی مہر مقرر ہو جائے گا۔ تاہم سنت یہ ہے کہ مہر کی مقدار قابل برداشت اور تھوڑی رکھی جائے، حق مہر کی تعیین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ کار بھی یہی تھا۔ مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر (3119) اور (10525) کے جوابات ملاحظہ کریں۔
نکاح کے لیے مہر ضروری ہے۔ جب مہر کی مقدار پر اتفاق ہو جائے، تو یہ خالصتاً عورت کا حق بن جاتا ہے، اور ولی پر لازم ہے کہ وہ حق مہر عورت کو دے، اور خود اس میں سے عورت کی رضا مندی کے بغیر کچھ بھی نہ لے۔
اگر عورت بالغ اور سمجھدار ہو، تو نکاح کے بعد وہ اپنے شوہر کے حق میں پورے مہر یا اس کے کسی حصے سے دستبردار ہونے کا اختیار رکھتی ہے۔
اگر نکاح مہر کے بغیر ہو جائے، تو نکاح درست ہوگا، اور عورت کو "مہر المثل" (معمول کے مطابق مہر) دینا لازم ہو گا۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر (111127) اور (112153) ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم