جمعرات 23 شوال 1445 - 2 مئی 2024
اردو

جب تھوڑے سے پانی میں نجاست گرے اور پانی کا کوئی وصف تبدیل نہ ہو تو کیا پانی نجس ہو جائے گا؟

سوال

مجھے جب معلوم ہو کہ پانی میں نجاست گری ہے لیکن معمولی سی تھی جس کی وجہ سے پانی کے اوصاف میں سے کوئی وصف بھی نہیں بدلا تو کیا اس پانی سے میں وضو کر سکتا ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

پانی میں گرنے والی نجاست کی تین صورتیں ہیں:

پہلی صورت: نجاست کی وجہ سے پانی کے تین اوصاف (رنگت، ذائقہ، اور بو) بدل جائیں، تو سب کے ہاں متفقہ طور پر پانی نجس ہو گیا ہے، چاہے پانی تھوڑا ہے یا زیادہ۔

جیسے کہ ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ پانی تھوڑا ہو یا زیادہ، جب اس میں نجاست گر پڑی ہے اور نجاست نے پانی کے ذائقے، رنگت یا بو بدل دی ہے تو یہ پانی نجس ہے، ایسے پانی سے کیا ہوا وضو اور غسل کفایت نہیں کرے گا۔" ختم شد
" الأوسط" (1/260)

دوسری صورت:

نجاست بہت زیادہ پانی میں گرے، اور نجاست کے گرنے سے پانی کے اوصاف رنگت، ذائقہ، اور بو میں سے کچھ بھی نہ بدلے، تو یہ پانی بھی سب کے ہاں پاک ہے۔

جیسے کہ ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ بہت زیادہ پانی جیسے دریائے نیل یا سمندر وغیرہ کا پانی ہے اگر اس میں نجاست گر جائے اور نجاست گرنے سے رنگت، ذائقہ اور بو کچھ بھی نہ بدلے پانی اپنی اصلی حالت پر باقی ہو تو اس سے وضو اور غسل کیا جا سکتا ہے۔" ختم شد
الاجماع: (35)

تیسری صورت:
نجاست تھوڑے پانی میں گرے، لیکن پانی کا کوئی بھی وصف تبدیل نہ ہو ، مثلاً: خون کا چھینٹا، یا پیشاب کا قطرہ برتن میں موجود پانی میں پڑ جائے اور پانی کا کوئی بھی وصف تبدیل نہ ہو، تو کیا نجاست گرنے کی وجہ سے اس پانی کو نجس کہا جائے گا؟

اہل علم کے صحیح ترین موقف کے مطابق: پانی کو نجس تبھی کہا جائے گا جب پانی نجاست کی وجہ سے تبدیل ہو جائے چاہے پانی تھوڑا ہو یا زیادہ۔

یہ موقف مالکی فقہائے کرام کا ہے، جبکہ امام احمد سے ایک روایت اس کے مطابق بھی منقول ہے۔ اسی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ان کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے، اور معاصر اہل علم جیسے کہ شیخ ابن باز، ابن عثیمین اور دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام نے اختیار کیا ہے۔
تفصیلات کے لیے دیکھیں: قرافی رحمہ اللہ کی "الذخيرة" (1/172) ، ابن قدامہ رحمہ اللہ کی "المغنی" (1/39) ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے "مجموع الفتاوى" (21/ 32) ، اور ابن عثیمین رحمہ اللہ کی "الشرح الممتع " (1/41)

ان کی دلیل سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا: کیا ہم بضاعہ کنویں سے وضو کر لیا کریں؟ اس کنویں میں حیض کی ٹاکیاں، کتوں کا گوشت، اور گندگی پھینکی جاتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پانی پاک ہے اسے کوئی چیز نجس نہیں کرتی۔)"اس حدیث کو ابوداود رحمہ اللہ : (66)، ترمذی رحمہ اللہ : (66)، نسائی رحمہ اللہ : (326)نے روایت کیا ہے اور امام احمد، یحیی بن معین، ترمذی، نووی، ابن الملقن اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔ مزید تفصیلات کے لیے دیکھیں : "المجموع" (1/82) ، "البدر المنير" (1/381)

تو اس حدیث میں ہے کہ پانی پاک ہوتا ہے، اسے کوئی چیز نجس نہیں کرتی۔ تاہم اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ نجاست کے گرنے سے اگر پانی میں تبدیلی آ جاتی ہے تو پانی نجس ہو جائے گا۔ چنانچہ اگر پانی میں تبدیلی نہ آئے تو پانی اپنی اصل یعنی طہارت پر قائم ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث کے الفاظ عام ہیں جس میں پانی تھوڑا ہو یا زیادہ سب ہی آ جاتے ہیں، نیز یہ فرمان ہمہ قسم کی نجاست کو بھی شامل ہے۔
چنانچہ اگر پانی کے اوصاف میں نجاست کی وجہ سے تبدیلی آ جاتی ہے تو ایسے پانی کو استعمال کرنا حرام ہے؛ کیونکہ نجاست پانی میں موجود ہے، اگر پانی استعمال کریں گے تو نجاست استعمال ہو گی؛ لیکن اگر نجاست پانی میں گر کر اپنا وجود کھو بیٹھے تو پانی پاک ہو گا؛ کیونکہ اس وقت نجاست کا وجود ہی نہیں ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (21/33)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح بات یہ ہے کہ: دو مٹکے سے کم پانی بھی تبھی نجس ہو گا جب پانی کے تین اوصاف میں سے کوئی بھی وصف بدل جائے، یعنی دو مٹکے سے کم پانی کا حکم بھی وہی ہے جو دو مٹکے پانی کا ہے؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (پانی پاک ہوتا ہے، اسے کوئی چیز نجس نہیں کرتی)۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو مٹکوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اس سے پانی اگر کم ہو گا تو پھر غور و خوض کرنا پڑے گا کہ نجاست گرنے سے پانی کا کوئی وصف تبدیل تو نہیں ہو گیا، اس لیے آپ نے دو مٹکوں کا ذکر نہیں کیا کہ ان سے کم پانی نجاست گرتے ہی نجس ہو جائے گا۔ اس حدیث کا یہ مفہوم سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث کی وجہ سے ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بالکل تھوڑا سا پانی عام طور پر نجاست گرنے سے ہی تبدیل ہو جاتا ہے، اس لیے تھوڑے سے پانی کو بہا دیا جائے، اور ایسے پانی کو استعمال کرنے سے بچیں۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (10/16)

دائمی فتوی کمیٹی کے اہل علم کہتے ہیں:
"پانی کے بارے میں بنیادی حکم طہارت کا ہے، چنانچہ اگر پانی کی رنگت بدل گئی، یا ذائقہ یا بو نجاست کی وجہ سے تبدیل ہو جائے تو وہ نجس ہے، چاہے پانی تھوڑا ہو یا زیادہ، لہذا اگر نجاست کے گرنے سے پانی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو ایسا پانی پاک ہے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (5/84)

بہ ہر حال اس مسئلے میں اختلاف بہت قدیم سے چلا آ رہا ہے ، اس مسئلے میں بہت زیادہ لے دی ہوئی ہے، اور اس میں دو طرفہ معتبر دلائل ہیں، اسی لیے ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر پانی میں نجاست شامل ہو جائے اور پھر بھی پانی پر نجاست کا کوئی اثر واضح نہ ہو تو یہ معرکۃ الاراء مسئلہ ہے، اور اس میں اقوال بھی بہت زیادہ ہیں۔" ختم شد از " بدائع الفوائد "(3/257)

اسی طرح علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "حدیث کے الفاظ "پانی کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی" اپنے عموم کی وجہ سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ محض نجاست کے شامل ہونے سے پانی طہارت کے دائرے سے نہیں نکلتا۔ جبکہ دو مٹکوں والی روایت کا مفہومِ مخالف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نجاست شامل ہوتے ہی پانی اپنی طہارت سے خارج ہو جائے گا۔ چنانچہ اب جو اہل علم ایسے مفہومِ مخالف کی تخصیص کے قائل ہیں تو انہوں نے اس مفہومِ مخالف کی تخصیص کی ہے، اور جو مفہومِ مخالف کی تخصیص کے قائل نہیں ہیں تو وہ یہاں بھی تخصیص نہیں کرتے۔ جو اہل علم یہ کہتے ہیں کہ تھوڑا پانی نجاست گرتے ہی نجس ہو جاتا ہے اگرچہ پانی کے اوصاف تبدیل نہ ہوں، ان کے دلائل مفہومِ مخالف کے عموم کی تخصیص کے جواز کی تائید کرتے ہیں۔ یہ ایسا مرحلہ ہے کہ جہاں درست موقف تک رسائی چند گنے چنے افراد کو ہی حاصل ہو پاتی ہے۔ " ختم شد از "نيل الأوطار "(1/46)

چنانچہ دینی مسئلے میں محتاط اقدام کرتے ہوئے کوئی شخص ایسے تھوڑے پانی کو استعمال نہیں کرتا جس میں اسے علم ہے کہ نجاست گری ہے، چاہے پانی کے اوصاف تبدیل نہیں ہوئے تو یہ زیادہ بہتر عمل ہے، اور بری الذمہ ہونے کے لیے بہتر ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب پانی بالکل واقعی بہت معمولی ہو تو ایسے میں احتیاط کا پہلو مزید مضبوط ہو جاتا ہے کہ پانی استعمال نہ کیا جائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب