سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

رہائش کیلئے جمع شدہ مال پر بھی زکاۃ واجب ہے

225834

تاریخ اشاعت : 21-06-2015

مشاہدات : 3835

سوال

سوال: ایک فتوی زیر نظر آیا ہے کہ رہائش کیلئے جمع شدہ رقم پر زکاۃ نہیں ہے، کیونکہ یہ رقم انسان کی بنیادی ضرورت سے خارج نہیں ہے، اسی طرح شادی، علاج وغیرہ کیلئے جمع شدہ مال کا بھی یہی حکم ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں: کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیں: جو بچ جائے۔[البقرة : 219] اور " اَلْعَفْوَ " وہی ہے جو انسانی ضروریات سے زیادہ ہو، اسی طرح اس موقف کے قائلین اس حدیث کو بھی اپنی دلیل بناتے ہیں : (صدقہ صرف اسی حالت میں ہے جب صدقہ کے بعد بھی غنی رہے) تو آپ کی اس بارے میں کیا وضاحت ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جو مال انسان اپنی حاجت کیلئے جمع کرتا ہے چاہے وہ رہائش کیلئے ہو یا شادی کیلئے یا کسی بھی ضرورت کیلئے  اگر وہ مال نصاب کو پہنچ رہا ہے اور اس پر سال بھی گزر گیا ابھی تک اپنی ان ضروریات پر صرف نہیں کیا تو اس پر زکاۃ  عائد ہوگی۔
اس بات کا تفصیلی بیان  اور دلائل فتوی نمبر: (93251) فتوی نمبر: (89867) اور فتوی نمبر: (128166) میں پہلے گزر چکا ہے۔

دوم:

اس حکم میں اور فرمانِ باری تعالی:
وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ
ترجمہ: اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں: کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیں: جو بچ جائے۔[البقرة : 219] میں کوئی تصادم نہیں ہے، کیونکہ آیت کریمہ راجح موقف کے مطابق نفلی صدقات کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور اسی کو طبری نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے راجح قرار دیا ہے، چنانچہ امام طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ اللہ تعالی کی طرف سے ساری مخلوق کو  ادب کی تعلیم ہے،  اس میں اللہ تعالی نے نفلی صدقات سے متعلق آداب سکھائے ہیں،  یہ ادب ثابت ہے، اس کی وجہ سے کوئی حکم منسوخ نہیں ہوا، اور  نہ ہی اسے کسی نے منسوخ کیا ہے۔
چنانچہ کسی بھی دیندار اور متقی شخص کیلئے نفلی صدقات، عطیات، اور تحائف دیتے ہوئے حد سے تجاوز کرنا مناسب نہیں ہے، یہی ادب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے اس فرمان میں واضح فرمایا ہے: (جب تم میں سے کسی کے پاس کوئی اضافی چیز ہو تو سب سے پہلے اپنے نفس کو ترجیح دے پھر اپنی بیوی کو اور پھر اپنی اولاد کو) اس کے بعد  بھی اگر اضافی مال موجود ہو تو رضائے الہی کا باعث بننے والے راستوں پر اسے خرچ کرے، اور اسی کو عربی میں "قوام" کہتے ہیں، یعنی کنجوسی اور فضول خرچی کے درمیان کی راہ، اور اسی کو اللہ تعالی نے اپنے کتاب میں [بطورِ مدح] بیان فرمایا ہے" انتہی
" تفسیر طبری " (4/346)

اور قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر : (3/62)میں کہتے ہیں:
"جمہور علمائے کرام کے مطابق اس آیت سے مراد نفلی صدقات ہیں" انتہی

سوم:

اسی طرح یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی متصادم نہیں ہے : (بہترین صدقہ وہی ہے جس میں صدقہ کے بعد میں غنی ہو) بخاری: (5356) مسلم: (1034)؛ کیونکہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ : "افضل صدقہ یہ ہے کہ انسان صدقہ کرنے کے بعد بھی غنی رہے، اور اپنی ضروریات خود پوری کرے، اور مخصوص حالات کیلئے بھی  کچھ نہ کچھ بچا کر رکھے" انتہی
" مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح " (6/365)

اور جس شخص کے پاس نصاب کے مطابق مال موجود ہے، اور اس پر سال بھی گزر گیا ہے تو وہ شریعت کی رو سے غنی ہے، اس پر زکاۃ واجب ہے، اور زکاۃ ادا کرنے سے اس کا مال بالکل بھی کم نہیں ہوگا، اور نہ ہی زکاۃ کی ادائیگی سے اسے نقصان ہوگا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں اللہ کی قسم بھی اٹھائی ہے ، چنانچہ ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (تین چیزوں پر میں قسم دیتا ہوں: صدقہ دینے سے کسی بندے کا مال کم نہیں ہوتا، کوئی بھی شخص صبر کرتے ہوئے ظلم  برداشت کرے تو اللہ تعالی اسے عزت سے نوازتا ہے، اور کسی بھی بندے نے مانگنے کا دروازہ کھولا تو اللہ تعالی اس پر فقیری  کا دروازہ کھول دے گا) ترمذی: (2325) اور دیگر نے اسے روایت کیا ہے، اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب