اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مصحف اورانگلیاں چومنا اورقرآن پڑھتے وقت ہلنا

سوال

میرا سوال بدعت کے متعلق ہے ، جس مسجد میں جاتا ہوں وہاں پرکچھ بھائ کچھ ایسے کام کرتے ہیں جومیرے خیال کے مطابق بدعت ہیں لیکن میں اس کی مصادر سے تاکید کرنا چاہتاہوں ، اگر یہ کام صحیح نہ ہوۓ توان شاءاللہ ان کاموں کو حکمت کے ساتھ صحیح کرنے کی کوشش کروں گا ۔
1- دعا کے بعد انگلیوں پرپھونک مارنا اور انگوٹھے کوآنکھوں پر پھیرنا ۔
2- دعا کوہمیشہ سورۃ الفاتحہ کے ساتھ ختم کرنا ۔
3- قرآن کریم پکڑتے اور رکھتے وقت چومنا ۔
4- نماز میں بیٹھے ہوۓ یا پھر قرآن مجید پڑھتے ہوۓ ہلنا ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

عبادات میں یہ چیز ضروری ہے کہ وہ قرآن اورسنت صحیحہ میں سے صحیح دلیل پر قائم ہو ، اورپھرشریعت اسلامیہ کے قواعد میں سے ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت مشروع طریقے پر کی جاۓ نہ کہ بدعات پر۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جس نے ہمارے دین میں کوئ‏ نئ چيزنکالی جو کہ دین میں نہیں تو وہ مردود ہے ) یعنی اس کا وہ عمل حبط اور مردود ہے اللہ تعالی اسےقبول نہیں فرماۓ گا ۔

سورۃ فاتحہ کےساتھ دعا ختم کرنے کی دلیل کتاب وسنت سےنہیں ملتی ، اوراسی طرح دعا کے بعدانگلیوں میں پھونک مارکر آنکھوں پر ملنے کی بھی کو‏ئ دلیل نہیں ملتی ۔

شقیری رحمہ اللہ تعالی نےنماز کے بعد دعا کے اختتام پردونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کوچومنااور آنکھوں پرپھیرنا بدعت قرار دیا ہے ، اوراسی طرح نماز کےبعد دونوں ھاتھوں کی انگلیاں اکٹھی کرکے پڑھتے ہوۓ آنکھوں کولگانابڑی قبیح بدعت ہے ۔ السنن والمبدعات ( ص 71 ) ۔

لجنۃ دائمۃ نے قرآن کریم چومنے کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوۓ مندرجہ ذیل فتوی جاری کیا ہے :

ہم قرآن مجید کے چومنے کے متعلق کوئ دلیل نہیں جانتے ۔

اور ایک دوسرے جواب میں لجنۃ کا کہنا ہے کہ : ہمارے علم میں قرآن کریم کو چومنے پرکوئ شرع دلیل نہیں ہے ، اور قرآن مجید تو تلاوت اور غورو فکراور تدبر و تعظیم اوراس پر عمل کرنے کے لیے نازل ہوا ہے ۔ فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( نمبر 4172 ) ۔

اور ابن مفلح کی کتاب " الآداب الشرعیۃ " میں مندجہ ذیل عبارت ہے :

اور امام احمد رحمہ اللہ تعالی سے اس مسئلۃ میں توقف ہے ( یعنی مصحف کوچومنے کے بارہ میں ) اور اسے آنکھوں کو لگانے کے متعلق ، قاضی نے جامع الکبیر ميں کہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس میں توقف اس لیے کیا ہے کہ اگرچہ اس میں رفعت واکرام ہے کیونکہ جس میں قیاس کے لیے مدخل نہ ہو اس کا نہ تو کرنا ہی مستحب ہے اور نہ ہی وہ قرب کا راہ ہے ، اور اس کی تعظیم توقیفی طور پر ہی ہوتی ہے ۔

کیا اّپ یہ نہیں دیکھتے کہ عمر رضي اللہ تعالی عنہما نے جب حجر اسود کودیکھا تو کہنے لگے : تو نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان اور اگر میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چومتے ہوۓ نہ دیکھا ہوتا تومیں تجھے کبھی بھی نہ چومتا ۔ اھـ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1597 ) صحیح مسلم ( 1270 ) ۔

قرآن مجید اور نماز پڑھنے میں ہلنا یہ یھودیوں کا فعل ہے جو کہ ان کے عبادت کی ایک حالت ہے تو کسی مسلمان کے لائق نہیں کہ وہ یہ فعل عمدا کرے ۔ دیکھیں کتاب " بدع القراء بکر ابوزيد ( ص 57 ) ۔

اور سوال میں جو آپ نے اس منکرکو ختم کرنے میں حکمت سے کام لینے کا کہا ہے وہ شکریہ کے لائق ہے تو حکمت یہ ہے کہ آپ ان سے عبادت میں اس فعل کی دلیل طلب کریں ، اس لیے کہ دلیل فاعل کے ذمہ ہوتی ہے نہ کہ اس فعل کو روکنے والے کے ذمہ ۔

اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو ہر قسم کی بھلائ کے کام کرنے کی توفیق دے ، اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں برساۓ آمین ۔

واللہ تعالی اعلم ۔ .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد