الحمد للہ.
مجھے اس قصہ كے متعلق كوئى علم نہيں كہ آيا يہ صحيح ہے يا نہيں.
سوال كى دوسرى شق:
كيا قبروں كو اكھاڑنا جائز ہے؟
ہم كہتے ہيں كہ اصل تو يہى ہے كہ جائز نہيں، اس كى دليل مندرجہ ذيل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ہے:
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
" ميت كى ہڈى توڑنا اسى طرح ہے جيسے زندہ كى كى توڑى جائے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3207 ).
يہ اس بات كى دليل ہے كہ ميت كو حرمت حاصل ہے، لھذا مسلمان شخص زندہ ہو تب بھى اسے حرمت حاصل ہے، اور اگر فوت ہو جائے تب بھى، اگر ايسے ہى ہے تو پھر كسى ظاہرى مصلحت كے بغير قبراكھاڑنا جائز نہيں، اور يہ شرعى حاكم كے اوپر ہے اور وہى اس مصلحت كو مقرر كر سكتا ہے.