اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

زندگى ميں صدقہ كرنا افضل ہے

22885

تاریخ اشاعت : 22-09-2010

مشاہدات : 10773

سوال

كيا انسان كے ليے اپنى زندگى ميں صدقہ كرنا افضل ہے، يا كہ وہ وصيت كرے كہ اس كے مال سے وفات كے بعد صدقہ كيا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صحت و تندرستى كى حالت ميں كيا ہوا صدقہ افضل ترين صدقہ ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر كہنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كونسا صدقہ زيادہ اجرو ثواب كا باعث ہے؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم تندرستى اور مال كى حرص ركھتے ہوئےاور صحت كى حالت ميں صدقہ كرو اور تمہيں فقر كا ڈر ہو اور مالدارى كا طمع ہو، اور تم دير نہ كرو حتى كہ جب جان حلق ميں اٹك جائے تو كہنے لگو: اتنا فلاں كو اور اتنا فلاں كو اور اتنا فلاں كو دے دو"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1330 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1713 )

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

خطابى رحمہ اللہ كا قول ہے: حديث كا معنى يہ ہے كہ: غالبا حرص صحت اور تندرستى كى حالت ميں ہوتى ہے، لہذا جب وہ مال كى حرص ركھے اور صدقہ كرے تو اس كى نيت ميں زيادہ صدق اور زيادہ اجروثواب كا باعث ہو گا، بخلاف اس كے كہ جو شخص موت كے كنارے پہنچ چكا ہو اور زندگى سے مايوس ہوگيا اور ديكھا كہ اس كا مال دوسروں كو ملنے والا ہے تو اس وقت اس كا كيا ہوا صدقہ صحت كى حالت كى بنسبت ناقص ہے، اور حرص باقى رہنے كى اميد اور فقر كا خوف ہے... صحت اور حرص كى حالت ميں كيے ہوئے صدقے كى بنسبت وصيت ميں اسے اتنا اجروثواب حاصل نہيں ہوگا.

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور حديث ميں ہے كہ صحت اور زندگى كى حالت ميں قرض كى ادائيگى اور صدقہ كرنا موت كے بعد اور بيمارى ميں كرنے سے افضل ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا:

" اور تو صحيح اور حريص ہو اور مالدارى كى خواہش كرتے ہو" الخ

كيونكہ صحت اور تندرستى كى حالت ميں مال نكالنا غالبا مشكل ہوتا ہے، كيونكہ اسے شيطان ڈراتا اور لمبى عمر كے امكان كو مزين كرتا ہے، اور اسے باور كراتا ہے كہ اسے مال كى ضرورت ہے.

جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

شيطان تمہيں فقر سے ڈراتا ہے . الآيۃ

اور يہ بھى ہے كہ بعض اوقات شيطان اس كے ليے وصيت ميں ظلم كرنا، يا وصيت كر كے وصيت كو ختم كرنے كو مزين كر ديتا ہے، تو وہ صرف كمى اور قليل كو ہى ترجيح ديتا ہے.

بعض سلف رحمہ اللہ تعالى نے اہل ثروت اور مالداروں كے بارہ ميں كہا ہے كہ: يہ لوگ اپنے اموال ميں اللہ تعالى كى دو بار نافرمانى كرتے ہيں: يہ مال جب زندگى ميں ان كے ہاتھوں ميں ہوتا ہے تو اس ميں بخل سے كام ليتے ہيں، اور موت كے بعد جب ان كے ہاتھوں سے نكل جاتا ہے تو اس ميں اسراف سے كام ليتے ہيں.

اور امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے حسن سند كے ساتھ اور ابن حبان نے اسے صحيح كہا ہے ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ سے مرفوعا بيان كيا ہے كہ:

" جو اپنى موت كے وقت صدقہ اور ( غلام ) آزاد كرتا ہے اس كى مثال اس شخص جيسى ہے جو سير ہو جانے كے بعد ہديہ كردے "

اور يہ باب كى حديث كے معنى طرف پلٹتا ہے.

اور ابو داود رحمہ اللہ نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے مرفوعا روايت كيا ہے اور اس روايت كو ابن حبان نے صحيح كہا ہے كہ:

" آدمى كا اپنى زندگى اور صحت كى حالت ميں ايك درہم صدقہ كرنا موت كے وقت سو درہم كرنے سے بہتر ہے" اھـ

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد