الحمد للہ.
ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز تراویح کے بارے میں فرمایا: (جو شخص امام کے ساتھ مکمل قیام اللیل کرے یہاں تک کے امام کے ساتھ ہی واپس ہو تو اس کیلیے پوری رات کے قیام کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے)
ترمذی: (806) نیز امام ترمذی نے اسے روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ : حسن صحیح حدیث ہے، ابو داود: (1375) البانی نے اسے " إرواء الغليل " (2 / 193) میں صحیح قرار دیا ہے۔
لہذا یہ فضیلت اس شخص کیلیے ہے جو امام کے ساتھ مکمل تراویح ادا کرے اور امام کے واپس ہونے پر گھر جائے۔
نماز تراویح کا آخری حصہ کونسا ہے کہ جس کو ادا کرنے پر امام واپس ہوتا ہے؟ اس بارے میں شریعت نے اصول یہ بنایا ہے کہ وہ نماز وتر ہے، جیسے کہ یہ چیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم اور عمل دونوں سے ثابت ہے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنی رات کی آخری نماز وتر بناؤ)
بخاری: (998) ، مسلم :(751)
چاہے وتروں کی ادائیگی نماز عشا کے فوری بعد ہو یا رات کی آخری تہائی میں ہر دو طریقے درست ہیں۔
چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس شخص کو یہ خدشہ لاحق ہو کہ رات کے آخری حصہ میں بیدار نہیں ہو سکے گا تو وہ رات کی ابتدا میں ہی وتر پڑھ لے، اور جسے رات کے آخری حصہ میں بیدار ہونے کی امید ہو تو وہ آخری حصہ میں ہی وتر پڑھے؛ کیونکہ رات کے آخری حصہ کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل بھی ہے)
مسلم: (755)
اس بنا پر جو شخص نماز عشا کے بعد پہلی جماعت کے ساتھ بیس رکعات ادا کرے اور امام کے ساتھ وتر پڑھ لے تو اس کی نمازِ تراویح امام کے ساتھ مکمل ہو جائے اور وہ امام کے ساتھ مکمل قیام کرنے پر پوری رات کے قیام کا مستحق ہو گا، اب اس کیلیے رات کے آخری حصہ میں دوسرے امام کے ساتھ نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ اس کی پہلی نماز مکمل اور کامل ہے۔
البتہ اگر کوئی شخص مزید اجر حاصل کرنے کیلیے دونوں اوقات میں نماز پڑھتا ہے تو یہ زیادہ اچھا ہے، تاہم اسے دو بار وتر نہیں پڑھنے چاہییں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دو بار وتر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
چنانچہ قیس بن طلق بن علی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ : انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (ایک رات میں دو بار وتر نہیں ہیں)
ترمذی: (470) اسے ابن حجر نے "فتح الباری"(2/481) میں حسن قرار دیا ہے، اور البانی نے اسے "صحيح سنن ترمذی" (470) میں صحیح قرار دیا ہے۔
یہاں اس کیلیے دو طریقے ہیں ، ہر ایک طریقے کے بڑی تعداد میں علمائے کرام قائل ہیں:
1- جب پہلا امام وتر پڑھائے تو اس کے ساتھ ایک رکعت اور اضافہ کر دے تا کہ طاق نہ رہے بلکہ جفت ہو جائے، اور پھر دوسرے امام کے ساتھ رات کے آخری حصہ میں نماز پڑھے اور اسی کے ساتھ ہی وتر ادا کرے۔
2- پہلے امام کے ساتھ ادا کیے ہوئے وتروں پر ہی اکتفا کرے، اور جب دوسرے امام کے ساتھ نماز ادا کرنے لگے تو پھر وتر ادا کیے بغیر واپس چلا جائے، اور اگر دوسرے امام کے ساتھ بھی وتر ادا کرے تو قیام اللیل کی نیت سے اس میں ایک رکعت مزید شامل کر کے اسے جفت بنا لے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ جو شخص رات کے اول حصے میں وتر پڑھ لے اور پھر آخری حصہ میں بھی اس کی آنکھ کھل جائے۔۔۔
صحابہ کرام اور دیگر اہل علم کا کہنا ہے کہ : اگر کوئی شخص رات کے اول حصے میں وتر پڑھ کر سو جائے پھر رات کے آخری حصہ میں بیدار ہو تو جتنے مرضی نوافل ادا کرے اور اپنے ادا شدہ وتر کو اس کی حالت پر چھوڑ دے، یہ سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن مبارک ، شافعی، اہل کوفہ اور احمد کا موقف ہے۔
یہی طریقہ کار زیادہ بہتر بھی ہے؛ کیونکہ یہ متعدد اسناد سے منقول ہے: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وتر کے بعد بھی نماز ادا کی ہے)" انتہی
" سنن ترمذی" (2 / 334)
مزید فائدے کیلیے فتوی نمبر: (155649) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.