جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

دو خاندانوں نے ایک دوسرے کو زکاۃ الفطر یعنی فطرانہ دینے کا معاہدہ کر لیا

سوال

ایسی زکاۃ الفطر یعنی فطرانے کا کیا حکم ہے جس میں دو خاندان باہمی اتفاق کر لیں کہ وہ ایک دوسرے کو فطرہ دیں گے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے زکاۃ فرض کی ہے تو اس کے مستحقین بھی ذکر فرمائے ہیں ان میں فقراء و مساکین شامل ہیں نیز زکاۃ کی ادائیگی کو انسان کیلیے کنجوسی اور بخیلی سے پاکی کا ذریعہ بھی بنایا ، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا)
ترجمہ: ان کے اموال سے زکاۃ لیکر انہیں پاک کرو اور ان کا تزکیہ کرو۔[التوبہ:103]

اس لیے زکاۃ ادا کرتے ہوئے یہ بات ضروری ہے کہ خوشی سے زکاۃ ادا کریں، لہذا زکاۃ ادا کرنے والا زکاۃ وصول کرنے والے پر زکاۃ کے عوض کسی بھی فائدے کی شرط نہیں لگا سکتا۔

اسی لیے علمائے کرام صراحت سے لکھا ہے کہ: قرض خواہ مقروض کو زکاۃ دیتے ہوئے یہ شرط نہیں لگا سکتا کہ وہ زکاۃ وصولی کے بدلے میں اس کا قرضہ واپس کرے گا۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی کو زکاۃ دینے کا مقصد اپنے پھنسے ہوئے مال کو نکالنا ہو یا قرضہ واپس لینا مقصود ہو تو اسے زکاۃ دینا جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ زکاۃ اللہ تعالی کا حق ہے اور یہ مستحق کی ملکیت ہوتی ہے؛ اس  لیے زکاۃ  کی رقم زکاۃ ادا کرنے والے کو واپس نہیں دی جا سکتی کہ وہ اس کا فوری فائدہ اٹھائے۔

اس کی مزید وضاحت یہاں سے بھی ہو تی ہے کہ :
صاحب شریعت صلی اللہ علیہ و سلم نے صدقہ دینے کے بعد قیمتاً اسے واپس لینے سے بھی منع فرمایا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنے صدقہ کو مت خریدو اور اپنا کیا ہوا صدقہ واپس مت لو) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ  و سلم نے قیمتاً صدقہ کی ہوئی چیز کو دوبارہ حاصل کرنے سے بھی منع فرمایا ہے اور اسے صدقہ واپس لینے کے مترادف قرار دیا  ہے، تو جو شخص کسی کو صدقہ دے ہی اس نیت سے رہا ہے کہ وہ اسے کسی اور مد میں واپس لے لے گا ؛ یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے؟!" انتہی
" إعلام الموقعین " (5 / 271)

اور سوال میں ذکر شدہ  شرط عین یہی شرط ہے؛ کیونکہ اس میں حیلہ ہے کہ ادا کی ہوئی زکاۃ یا اس جیسی چیز زکاۃ دینے والے کو واپس مل جائے گی۔

چنانچہ مذکورہ بالا صورتوں میں یکسانیت ہونے کی وجہ سے:
زکاۃ ادا کرنے والا شخص زکاۃ ادا کر کے بھی بخیلی اور کنجوسی کی بیماری سے پاک نہیں ہوا؛ کیونکہ اس زکاۃ دی ہی اس شرط پر ہے کہ دوسرا شخص اپنی زکاۃ اسے دے گا، یہ اس شخص کے کنجوس ہونے کی بھی دلیل ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب