اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مغفرت اور "عفو" یعنی معافی میں فرق

سوال

میں نے سنا ہے کہ مغفرت اور معافی میں فرق ہے، مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کے گناہ پر پکڑ نہ کرے، لیکن وہ آپ کے نامہ اعمال میں درج رہے گا، جبکہ معافی یہ ہے کہ گناہ پر پکڑ بھی نہ ہو اور اسے نامہ اعمال سے بھی اس طرح خارج کر دیا جائے کہ جیسے وہ گناہ سر زد ہوا ہی نہیں تھا۔

مجھے یہاں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ نامہ اعمال میں وہ لکھا ہوا باقی کیسے رہ سکتا ہے؟ تو کیا اس کا حساب دینا ہو گا؟ اس تفریق کی تائید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں، کیا کثرت استغفار گناہوں کو مٹا نہیں دیتا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل علم کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے "عفو" یعنی معافی مغفرت سے زیادہ معنی خیز ہے؛ کیونکہ معافی کا معنی مٹانا ہے، جبکہ مغفرت کا معنی پردہ پوشی ہے۔

جیسے کہ ابو حامد غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لفظ عفو، اس ذات پر دلالت کرتا ہے جو گناہوں کو مٹا دے، اور نافرمانیوں سے در گزر کرے، چنانچہ اس اعتبار سے یہ لفظ غفور کے قریب ہے، لیکن عفو میں اس سے زیادہ معنی خیزی پائی جاتی ہے؛ کیونکہ غفران میں پردہ پوشی کا معنی ہے، جبکہ عفو میں گناہ مٹانے کا معنی ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ کسی چیز کو مٹانا ، پردہ ڈالنے سے زیادہ معنی خیز ہوتا ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: "المقصد الأسنى" (140)

اسی طرح الشیخ محمد منیر دمشقی رحمہ اللہ "النفحات السلفية" (87) میں لکھتے ہیں:
"ذات باری تعالی کے بارے میں لفظ "العفو" کا معنی یہ ہے کہ گناہوں کے تمام اثرات کو کلی طور پر زائل کر دیا جائے، یعنی گناہوں کو کرام الکاتبین کے رجسٹروں سے بھی مٹا دیا جائے، اور قیامت کے دن ان کے بارے میں بالکل بات تک نہ کی جائے، بلکہ ان گناہوں کو دلوں سے بھی بھلا دے؛ کہیں یہ نہ ہو کہ وہ اپنے گناہوں کو یاد کر کر کے شرمندہ نہ ہوں، پھر ان گناہوں کی جگہ پر نیکیاں رکھ دے۔ اس لیے معافی مغفرت سے زیادہ معنی خیز ہے؛ کیونکہ مغفرت میں گناہوں پر پردہ ڈالنے کا عمل ہے، جبکہ عفو میں مٹانے کا معنی بھی پایا جاتا ہے، جو کہ محض پردہ ڈالنے سے زیادہ معنی خیز ہے۔" ختم شد

دیگر اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ : مغفرت ، معافی سے زیادہ معنی خیز ہے؛ کیونکہ اس میں پردہ پوشی بھی ہے اور سزا کا خاتمہ بھی اور ثواب کا حصول بھی، جبکہ عفو میں پردہ پوشی اور حصول ثواب شامل نہیں ہوتا۔

جیسے کہ ابن جزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عفو کا مطلب ہے کہ گناہ پر مواخذہ نہیں کرنا۔
جبکہ مغفرت عدم مواخذہ سمیت پردہ پوشی کو بھی شامل ہے۔
جبکہ رحمت میں ان دونوں کے معنی سمیت اضافی انعام و اکرام بھی شامل ہوتا ہے۔" ختم شد
" التسهيل" (1/ 143)

اسی طرح امام رازی رحمہ اللہ اپنی تفسیر (7/ 124)میں لکھتے ہیں:
"عفو کا یہ مطلب ہے کہ سزا کو ساقط کر دیں، جبکہ مغفرت میں جرم پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے، تا کہ شرمندگی اور رسوائی نہ ہو۔ گویا کہ بندہ یہ کہتا ہے کہ: میں آپ سے معافی کا طلب گار ہوں، اور جب آپ معاف کر دیں تو میرے جرائم پر پردہ بھی ڈال دیں۔" ختم شد

علامہ کفوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لفظ غفران ، سزا کے خاتمے اور ثواب کے حصول کا مطالبہ کرتا ہے، ان دونوں کا استحقاق صرف مومن کے پاس ہی ہوتا ہے، نیز یہ لفظ صرف اور صرف ذات باری تعالی کے بارے میں ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
جبکہ عفو کا لفظ مذمت اور ملامت کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، تاہم اس میں ثواب کا حصول شامل نہیں ہوتا۔" ختم شد
"الكليات" (ص 666)

علامہ عسکری ا پنی کتاب "الفروق" (413-414) میں کہتے ہیں:
"عفو اور غفران کے درمیان فرق یہ ہے کہ: لفظ غفران سزا کے خاتمے کا تقاضا کرتا ہے، اور سزا کا خاتمہ ثواب کے وجوبی حصول کو کہتے ہیں، اس لیے غفران کا حقدار ایسا مومن ہی ہوتا ہے جو ثواب کا مستحق بھی ہو، اسی لیے صرف اللہ تعالی کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے، چنانچہ عربی زبان میں کہا جائے گا: { غفر اللهُ لَك } یعنی اللہ تعالی آپ کی سزاؤں کو کالعدم قرار دے کر ثواب عطا فرمائے، لہذا غفران کی نسبت اللہ تعالی کی بجائے کسی انسان کی طرف کرتے ہوئے عربی میں نہیں کہہ سکتے کہ: { غفر زيدٌ لَك} اگر کہیں استعمال بھی ہوا ہے تو وہ شاذ ہے۔ ۔۔
جبکہ عفو میں ملامت اور مذمت کے خاتمے کا مطالبہ ہوتا ہے، لیکن اس میں ثواب کا حصول وجوبی نہیں ہوتا، اسی لیے اس لفظ کی نسبت انسانوں کی طرف ہو جاتی ہے، چنانچہ عربی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں: { عفا زيدٌ عن عمرو} لیکن جب معافی مل جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ثواب بھی ملے گا۔

البتہ عفو اور غفران : ان دونوں الفاظ کے معانی چونکہ قریب قریب ہیں، اور ایک دوسرے میں تداخل بھی پایا جاتا ہے، نیز انہیں اللہ تعالی کی صفات میں ملتے جلتے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے تو عربی زبان میں یہ لفظ کہہ سکتے ہیں: "عفا الله عنه و غفر له" یہ دونوں الفاظ ایک ہی مفہوم میں بول دئیے جاتے ہیں۔ تو جب کہا: "عفا عنه" تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ برائی کا خاتمہ ہو گیا، اور جب کہا: "غفر له" تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے ثواب بھی ملے۔" ختم شد

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"العفو، کا لفظ لوگوں پر اللہ تعالی کے حقوق کو ساقط کرنے اور انہیں معاف کرنے کو شامل ہے، جبکہ مغفرت کا لفظ لوگوں کو گناہوں کے شر سے تحفظ ، اللہ تعالی کی بندوں کی جانب مکمل توجہ ، اور اللہ تعالی کے بندوں سے راضی ہونے کا تقاضا کرتا ہے، جبکہ محض عفو یعنی معافی میں یہ نہیں ہوتا کہ معاف کرنے والا شخص معافی پانے والے کی طرف مکمل توجہ بھی کرے اور اس سے راضی بھی ہو۔
چنانچہ عفو میں صرف عدم مواخذہ ہے، جبکہ مغفرت اللہ تعالی کی طرف سے احسان، فضل اور سخاوت کا مظہر ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (14/ 140)

مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوا کہ راجح موقف کے مطابق مغفرت میں عفو سے زیادہ معنی خیزی ہے؛ کیونکہ مغفرت میں حق سے زیادہ ملتا ہے۔

جبکہ یہ کہنا کہ مغفرت کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالی گناہ پر پردہ ڈال دیتا ہے لیکن وہ اعمال نامے میں باقی رہتا ہے، نیز عفو کا مطلب اعمال ناموں میں سے بھی گناہوں کو مٹا دینے کا مفہوم پایا جاتا ہے، اس موقف کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب