کیا ہر نفل نماز کے لیے وضو کرنا مستحب ہے؟

سوال: 239934

کیا ہر نماز (نفل) کے لیے وضو کرنا مستحب ہے جیسا کہ بلال رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ تعالی کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

اول:
امام بخاری (1149) اور امام مسلم (2458) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کی نماز کے وقت فرمایا: (اے بلال! مجھے اپنے اس عمل کے بارے میں بتاؤ جسے تم نے اسلام میں سب سے زیادہ امید والا سمجھا ہے، کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی آہٹ سنی ہے)۔ اس پر بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے نزدیک سب سے زیادہ امید والا عمل یہ ہے کہ میں نے جب بھی دن یا رات کے کسی حصے میں وضو کیا تو اس وضو کے ساتھ جو بھی میرے مقدر میں لکھا ہوا تھا میں نے نماز پڑھی‘‘۔

ترمذی (3689) میں ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں نے جب کبھی اذان دی تو اس کے بعد دو رکعت لازمی پڑھی ہیں، اور جب بھی میں بے وضو ہوا تو میں نے اسی وقت دوبارہ وضو کر لیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا میرے اوپر یہ حق ہے کہ اس کے بعد دو رکعت پڑھوں‘‘۔ اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’صحیح سنن ترمذی‘‘ میں صحیح قرار دیا ہے۔

پس بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث وضو پر مداومت کے استحباب پر دلالت کرتی ہے اور ہر وضو کے بعد نماز پڑھنے کے استحباب کی بھی دلیل ہے۔ لیکن اس حدیث میں یہ دلیل نہیں ہے کہ ہر نفل نماز کے لیے وضو کرنا مستحب ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث میں وضو کے بعد نماز کی فضیلت ہے اور یہ کہ یہ سنت ہے اور یہ نماز کے لیے ممنوعہ اوقات میں بھی پڑھنا جائز ہے یعنی: سورج طلوع ہوتے وقت، زوال کے وقت اور غروب آفتاب کے وقت، اسی طرح نمازِ فجر اور عصر کے بعد؛ کیونکہ یہ سببی نماز ہے ، یہی ہمارا فقہی موقف ہے۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: شرح مسلم، (8/13)

ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث میں دلیل ہے کہ ہمیشہ وضو کی حالت میں رہنا مستحب عمل ہے ۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: فتح الباری، (3/35)

دوم:
اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ تجدیدِ وضو صرف اس وقت مستحب ہے جب پہلے وضو سے نماز پڑھ لی گئی ہو۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہمارے اصحاب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تجدیدِ وضو مستحب ہے: یعنی جب انسان پہلے سے با وضو ہو پھر وضو ٹوٹے بغیر دوبارہ وضو کرے۔ تاہم اب سوال یہ ہے کہ یہ کب مستحب ہے؟ اس کے متعلق پانچ اقوال ہیں، سب سے صحیح یہ ہے کہ اگر پہلے وضو کے ساتھ جب کوئی بھی نماز (فرض یا نفل) پڑھ لی ہو تب تجدیدِ وضو مستحب ہے۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: المجموع، (1/495)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فقہاء نے اسی شخص کے بارے میں بات کی ہے جو پہلے وضو سے نماز پڑھ چکا ہو کہ کیا اس کے لیے تجدید مستحب ہے یا نہیں؟ لیکن جو پہلے وضو سے نماز ہی نہ پڑھے تو اس کے لیے وضو دہرانا مستحب نہیں، بلکہ اس طرح تجدید کرنا بدعت ہے، جو سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور عہد نبوت سے لے کر آج تک کے مسلمانوں کے عمل کے خلاف بھی ہے۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: مجموع الفتاوی، (21/376)

تجدید وضو کے استحباب سے ان صورتوں کو مستثنیٰ کیا جائے گا جہاں ایک نماز دوسری نماز کے تابع ہو، جیسے فرائض کے ساتھ سنت مؤکدہ ، یا تراویح کے ساتھ وتر، یا جب دو نمازیں جمع کی گئی ہوں جیسے مغرب اور عشاء، تو ایسی حالت میں تجدید وضو مستحب نہیں؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’یہ تواتر سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یوم عرفہ کے دن مسلمانوں کو ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں، اور آپ کے پیچھے ہزاروں صحابہ نے نماز پڑھی، جب آپ نے ظہر کی نماز سے سلام پھیرا تو پھر ساتھ ہی عصر کی نماز بھی پڑھائی لیکن نہ آپ نے دوبارہ وضو کیا، نہ کسی کو حکم دیا، نہ کسی نے کسی کا دوبارہ وضو کرنا نقل کیا، تو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ تجدیدِ وضو مطلقاً مستحب نہیں ہے۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی فرض کے بعد نفل، کبھی نفل کے بعد فرض، کبھی فرض کے بعد فرض ایک ہی وضو سے پڑھ لیتے۔

مسلمان بھی آپ کے زمانے میں وضو کرتے اور جب تک وضو نہ ٹوٹتا نماز پڑھتے رہتے تھے، جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے۔ اور کسی صحیح یا ضعیف سند سے بھی یہ منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا حکم دیا ہو، لہٰذا اس نوعیت کے تجدید وضو کے مستحب ہونے کی دلیل چاہیے۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: مجموع الفتاوی، (21/371-372)

واللہ اعلم

حوالہ جات

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل خبرنامہ

اسلام سوال و جواب کی میلنگ لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android