الحمد للہ.
"الاحد"[ایک، تنہا، یکتا]اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں سے ایک نام ہے، اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
(قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ)
ترجمہ: آپ کہہ دیں اللہ ایک ہی ہے۔[الإخلاص:1]
اور "الاحد" کا معنی یہ ہے کہ وہ تنہا ایسی ذات ہے جو ازل سے یکتا ہے اس کے ساتھ کوئی نہیں ہے، وہ اپنی ذات، ربوبیت، الوہیت، اسما و صفات ہر اعتبار سے اکیلا ہے۔
شیخ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کے نام "الواحد، الاحد" کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جو تمام کمالات میں منفرد اور یکتا ہے، بایں طور کہ ان کمالات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے، بندوں پر اس کی وحدانیت نظریاتی ، عملی، اور قولی ہر اعتبار سے واجب ہے،اس لئے بندوں پر اس کے کمالِ مطلق کا اعتراف کرنا از بس ضروری ہے، اور یہ کہ وہ اس کمال میں اکیلا ہے اسی طرح عبادت بھی صرف اسی کی ہونی چاہیے" انتہی
"تفسیر سعدی" (945)
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (10282) کا جواب ملاحظہ کریں۔
نیز اس نام مبارک کے تقاضے اس طرح پورے ہو سکتے ہیں کہ: ہم یہ نظریہ رکھیں کہ اس کائنات کا پروردگار صرف اللہ تعالی ہی ہے، وہی پیدا کرنے والا، وہی ہر چیز کا مالک اور دنیا کے امور چلانے والا ہے، جب ہم یہ نظریہ اپنے ذہنوں میں جا گزین کر لیں گے تو پھر اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں اور صرف رضائے الہی کیلیے ہی عبادت کریں، اپنے اقوال و افعال میں صرف اللہ تعالی کیلیے اخلاص پیدا کریں۔
اس لیے "اللہ تعالی کے "الواحد، الاحد"ان دونوں جلیل القدر ناموں کا اثر ہماری زندگی پر اس طرح عیاں ہونا چاہیے کہ ہم ربوبیت اور الوہیت میں اللہ تعالی کو یکتا اور منفرد مانیں، اللہ تعالی کے افعال اور صفات میں اللہ تعالی کو تنہا اور اکیلا سمجھیں، اور یہ بھی سمجھیں کہ لوگوں کی حرکات و سکنات بھی اسی اکیلے کی مرضی اور منشا سے وجود میں آتی ہیں۔
چنانچہ جس طرح اللہ تعالی ربوبیت میں ایک ہے یعنی وہ اکیلا ہی پیدا کرتا ہے ، وہی رزق دیتا ہے ، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے، وہی سب کا مالک ہے اور اپنی مخلوق میں جیسے چاہے تبدیلیاں رونما کر دیا ہے بالکل اسی طرح الوہیت میں بھی وہ اکیلا ہے چنانچہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرایا جائے۔
مذکورہ بالا امور بجا لانے پر انسان اپنے پروردگار کی وحدانیت عملی طور پر ثابت کرنے میں کامیاب ہو گا کہ ہمہ قسم کی عبادت صرف اللہ تعالی کیلیے بجا لائے گا؛ کیونکہ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالی ہی ہے۔
جب یہ مفہوم دل میں ثابت ہو جائے تو پھر اس کے اثرات انسان کے اقوال، افعال اور تمام اعضا پر واضح اور عیاں ہوں گے، چنانچہ سجدہ، رکوع، اور نماز صرف اللہ تعالی کیلیے بجا لائے گا کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں کرے گا، نیز صرف اللہ تعالی سے ہی امید لگائے گا اسی سے دعائیں کرے گا اور حاجت روائی کا مطالبہ کرے گا، مدد، غوث اور پناہ صرف اللہ تعالی سے مانگے گا، خوف، ڈر اور دبدبہ صرف اللہ تعالی کا ذہن میں رکھے گا، اسی طرح بھروسا بھی صرف اللہ تعالی پر ہی کرے گا۔
اس تمام کا پہلا مقصود یہ ہے کہ: اللہ تعالی کے اسمائے گرامی:"الواحد، الاحد"پر ایمان کا لانے کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالی سے مانگا جائے، اسی سے دعا کریں، محبت، تعظیم ، جلال، خوف، امید، توکل اور دیگر تمام عبادات صرف اللہ تعالی کیلیے بجا لائی جائیں۔
اور ان تمام کاموں کیلیے ضروری ہے کہ محبت ہو تو صرف اللہ تعالی سے ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
ترجمہ: کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا محبوب بناؤں جو کہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔[الأنعام: 14]
اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ: دلوں کو خالق اور معبود سے مربوط کیا جائے، دل بلا شرکت ِ غیرے صرف اسی کی طرف متوجہ ہوں؛ کیونکہ وہی "الواحد، الاحد" ہے اسی کی جانب تمام مخلوقات اپنی ضروریات اور حاجت روائی کیلیے رجوع کرتی ہیں، وہ اکیلا ہی ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے وہ ہر چیز کامالک ہے اور وہی مختار کل ہے۔
جب دل میں یہ نظریہ پختہ ہو تو دل کو ادھر اُدھر بھٹکنے کی بجائے سکون اور چین نصیب ہوتا ہے کہ اس کا رب اکیلا ہی ہر چیز پر قادر ہے، اس طرح سے دل کا تعلق ان تمام سے کٹ جاتا ہے جو کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے، بلکہ ان کے اختیار میں بھی اگر کوئی چیز ہے تو وہ بھی خالص اللہ تعالی کی مرضی اور منشا کے مطابق ہے، چنانچہ وہ دوسرں کیلیے تو کیا اپنے لیے نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں!!
دل میں بیٹھ جانے والے اس احساس سے انسان مخلوق سے امید نہیں رکھتا بلکہ اپنی جہت، سمت، ہدف اور تمنا صرف اپنے خالق، معبود اور "الواحد، الاحد" نیز بے نیاز ذات سے ہی کرتا ہے، جس کی وجہ سے دل پر سکون ہو کر مطمئن ہو جاتا ہے؛ کیونکہ وہ اپنا تن من اور سب کچھ ایک اللہ کے سپرد کر چکا ہوتا ہے اب اسے کسی اور کی جانب دیکھنے یا جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ناقص و نا تواں لوگوں سے امید لگا کر حیرت، پریشانی اور بے چینی میں زندگی گزارے۔
اللہ تعالی نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والے بندے اور متعدد معبودوں کی پرستش کرنے والے بندے کی مثال بیان فرمائی جن میں سے ہر ایک معبود اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہوئے بندے کو ذلیل اور بکھرا ہوا بنا دیتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
ترجمہ: اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے۔ ایک شخص چند بدسرشت اور اپنے حق کے لئے باہم جھگڑنے والوں کا غلام ہے اور دوسرا صرف ایک ہی آدمی کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں غلاموں کی حالت ایک جیسی ہوسکتی ہے ؟ الحمد للہ لیکن اکثر لوگ یہ بات جانتے نہیں [الزمر:29]
لہذا اگر کوئی شخص اپنی ساری زندگی صرف اس ہدف میں صرف کر دے کہ بندگی صرف اللہ تعالی کی کرنی ہے، اور اس ہدف کیلیے کسی بھی چیز کو خرچ یا صرف کرنے میں تامل نہ کرے تو اس کی زندگی کسی اور ہدف کو پانے میں ضائع ہونے سے بچ جائے گی، وہ اپنے قیمتی سانس اور لمحات رائیگاں ہونے سے بچا لے گا، بلکہ وہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ایسے کام میں صرف کرے گاجن سے اس کی آخرت سنور جائے ، اللہ کی طرف بلائے اور اس کی راہ میں جہاد کرے، نیز اپنی عمر کے ایک منٹ کے ضائع ہونے پر بھی پورے دنیا کے ہاتھ سے نکل جانے سے بھی زیادہ افسردہ ہو؛ اس لیےمسلمان صحت ،فراغت ، مالی فراوانی اور جوانی کو اپنے لیے غنیمت سمجھتا ہے اور ان نعمتوں کے ہاتھ سے نکلنے سے پہلے اللہ تعالی کی بندگی میں صرف کر کے فائدہ اٹھاتا ہے، حتی کہ اپنے آرام اور سکون کرنے کے اوقات کو بھی اللہ تعالی کی عبادت کے طور پر گزارتا ہے وہ اس طرح کہ نیت یہ کرتا ہے کہ آرام کے بعد مزید نیکیوں کیلیے چست ہو جاؤں گا اور جسم آرام کرنے کے بعد نشیط ہو جائے گا" انتہی
مختصراً ماخوذ از کتاب: "ولله الأسماء الحسنى" (114-117)
واللہ اعلم.