جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اپنے والد، اور پھوپھیوں سے بات نہیں کرتا، نماز بھی نہیں پڑھتا، بلکہ اللہ کے بارے میں بد گمانیاں رکھتا ہے۔

سوال

اس شخص کا کیا حکم ہے جو اپنے والد سے بات نہیں کرتا؛ کیونکہ اس کا والد بد اخلاق ہے، اس کے لڑکیوں کے ساتھ حرام تعلقات ہیں، وہ اپنے خاندان کی ذمہ داریوں کو بھی ادا نہیں کرتا ، ہر بار اس کی والدہ کو طلاق دے دیتا ہے، یہ شخص کبھی بھی اپنی پھوپھیوں کے حال احوال دریافت نہیں کرتا کبھی بھی ان سے ملنے نہیں جائے گا کہ انہوں نے اس کی والدہ کے ساتھ بدسلوکی کی تھی، تاہم اتنا ہے کہ اگر راستے میں مل جائیں تو ان کو سلام کر دیتا ہے، مختلف مسائل کی وجہ سے جائے ملازمت میں بھی اپنے ساتھیوں سے بات نہیں کرتا؛ حالانکہ ان کے خلاف اس کے دل میں کسی قسم کا بغض اور حسد نہیں ہے، یہ شخص نماز بھی نہیں پڑھتا، اور ہمیشہ یہی کہتا رہتا ہے کہ اللہ تعالی اس کی نماز کبھی بھی قبول نہیں فرمائے گا؛ کیونکہ وہ پانچوں نمازیں مسجد میں ادا نہیں کرتا، وہ قطع رحمی کا مرتکب بھی ہے، کچھ لوگوں سے بالکل بات نہیں کرتا؛ کیونکہ انہوں نے اس کے ساتھ بد سلوکی کی تھی اور وہ کبھی بھی انہیں معاف نہیں کرے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جس شخص پر پریشانیوں کے انبار لگ جائیں، اس پر دنیا وسیع ہونے کے باوجود بھی تنگ ہو جائے ، اس کے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سمیت آس پاس کے سب لوگوں سے تعلقات بھی خراب ہو چکے ہوں تو وہ اللہ تعالی سے گڑگڑا کر دعا کرے، اور اپنے آپ پر نظر ثانی کرے، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا محاسبہ کرے، اپنی خطاؤں اور کمزوریوں کا اعتراف کرے، اور اللہ تعالی سے توبہ مانگے، اور آئندہ سے اچھے کام کرے۔

دوم:

باپ کے متعلق یہ ہے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرے، اور اچھا برتاؤ کرے، باپ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو اس سے قطع تعلقی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ والدین کے حقوق بہت عظیم ہیں، یہ اتنے عظیم ہیں کہ اگر والدین سے کوئی گناہ ہو جائے یا کسی گناہ پر مُصر بھی ہوں تب بھی ان کے حقوق کالعدم نہیں ہوتے۔

اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ اس وقت تک بھی حسن سلوک کا حکم دیا ہے جب والدین اپنی اولاد کو اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا حکم دے رہے ہوں، اور اس پر مجبور بھی کرتے ہوں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا 

ترجمہ: اور اگر وہ دونوں تجھے مجبور کریں کہ میرے ساتھ شرک کر، جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کی بات مت ماننا، البتہ دنیاوی امور میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے رہنا۔[لقمان: 15]

سوم:

خانگی امور میں لڑائی جھگڑے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ قطع تعلقی کر لیں اور دشمنی پیدا کر لیں۔ چنانچہ مسلمان کو اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان رکھنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی، ملتے جلتے سلام کرنا، اور باہمی محبت رکھنی چاہیے، یہ تقوی کے قریب تر عمل ہو گا، اور ایسی قطع تعلقی سے بھی دور ہو گا جسے اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام قرار دیا ہے؛ چاہے رشتہ داروں نے اس پر ظلم کیا ہو تب بھی ان سے صلہ رحمی کرنی چاہیے؛ کیونکہ لوگوں کی غلطیوں کو معاف کر دینا اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت پسند ہے، اس لیے اللہ اور اس کے رسول کی پسندیدہ چیز کو چھوڑ کر ایسی چیز مت اپنائیں جس کو اللہ بھی ناپسند فرماتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی ناپسند کرتے ہیں اور منع کرتے ہیں۔

جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں؛ میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں، میں ان کے ساتھ نیکی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں بردباری کے ساتھ ان سے درگزر کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جاہلوں والا سلوک کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر تم ایسے ہی ہو جیسے تم نے کہا ہے تو تم ان کو گرم راکھ کھلا رہے ہو اور جب تک تم اس روش پر رہو گے، ان کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک مدد گار تمہارے ساتھ رہے گا۔)

چہارم:

ملازمت کے ساتھیوں کے متعلق بھی یہی معاملہ ہے کہ شاید ہی کوئی ملازمت ہو گی جہاں پر اختلافات اور تصادم نہ ہو، اگر انسان بہت سی ایسی باتوں سے صرف نظر کے ساتھ کام نہ لے، صبر کا دامن نہ پکڑے، لوگوں کو ان کی غلطیوں پر معاف نہ کرے، اور ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر نہ کرے تو پھر ملازمت کے لیے جانا بذات خود بہت بڑی پریشانی اور ذہنی تناؤ اور دباؤ کا باعث بن جاتا ہے۔

لیکن اگر صبر کا دامن تھامے رہے، ایسی باتوں سے صرف نظر کے ساتھ کام لے، لوگوں کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کرے تو اللہ تعالی کے ذمے اس کا اجر یقینی ہے، اس طرح اس کے ساتھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، بلکہ اس کی اچھی عادات اور حسن اخلاق سے بہرہ ور ہوتے ہیں، اس طرح ایسا شخص دوسروں کے لیے بھی عملی نمونہ بن جاتا ہے، اور اس کی مثالیں دی جانے لگتی ہیں۔

لیکن اگر لوگوں کے ساتھ اختلافات کی بنا پر مسائل کو بڑھاتے چلے جائیں، سچے یا جھوٹے انداز میں انہیں اپنے اوپر ظلم کرنے والا سمجھیں، ہر وقت یہی تمنا رہے کہ ان سے دور ہی رہیں، ان کی غلطیوں پر درگزر سے کام نہ لیں، تو یہ مسلمان کے لیے دینی اور دنیاوی کسی بھی اعتبار سے مفید نہ ہو گا، بلکہ اس طرح اس کے لیے زندگی گزارنا ہی مشکل ہو جائے گا، نہ تو اس کی دینی صورت حال میں بہتری آئے گی اور نہ ہی اس کی دنیاوی زندگی خوشگوار ہو گی۔

پنجم:

ان کے بعد سب سے گھناؤنا جرم نماز نہ پڑھنا اور اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی ہے، یہ دونوں اتنے کبیرہ گناہ ہیں کہ ان سے سارے دین کا ملیامیٹ ہو جائے گا، ہر قسم کی برکت مٹ جائے گی، یہ دونوں گناہ بدبختی کھینچ لائیں گے؛ کیونکہ مکمل طور پر نماز کے قریب ہی نہ جانا کفر اور دین اسلام سے نکل جانے کا باعث ہے، بلکہ ہر تنگی اور پریشانی سمیت بد بختی کا باعث بھی ہے۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (5208) اور (83997)کا جواب ملاحظہ کریں۔

اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی کرنا کبیرہ ترین گناہوں میں شامل ہے، جیسے کہ اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (174619) کے جواب میں گزر چکی ہے۔

اس لیے اس شخص کو چاہیے کہ تمام امور میں اپنے آپ پر نظر ثانی کرے، جہاں جہاں بھی اس سے غلطی ہوئی ہے اللہ تعالی سے ان کی معافی مانگے، جس جس جگہ پر خرابیاں پیدا کی ہیں انہیں سنوارے، اپنے والد، پھوپھیوں اور ساتھیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے، ان تمام امور میں سب سے اہم یہ ہے کہ نماز کی پابندی کرے، اور اللہ تعالی سے کثرت کے ساتھ دعائیں کرے کہ اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرمائے، اور اس کے حالات سنوار دے، نیز اسے صرف ایسے کام کرنے کی توفیق دے جس میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہو۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب